Wednesday, November 20, 2024
Homeشخصیاتکچھ لمحات مفتی حسن منظر قدیری صاحب علیہ الرحمہ کی صحبت میں

کچھ لمحات مفتی حسن منظر قدیری صاحب علیہ الرحمہ کی صحبت میں

از قلم : انصار احمد مصباحی ، کچھ لمحات مفتی حسن منظر قدیری صاحب علیہ الرحمہ کی صحبت میں

(وفات : بروز جمعہ ، 7/ جنوری ، 2022ء)

عظیم نقاد، سب رنگ ادیب، کہنہ مشق فقیہ ، صوفی ، شاعر ، مورخ ، محدث، کنز الدقائق ، حضرت علامہ مفتی حسن منظر قدیری صاحب علیہ الرحمہ کی پیدایش 12/ اپریل، 1948ء کو، گانگی ٹولہ، پتھار بستی، بہادر گنج ، ضلع کشن گنج بہار کے ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔

گھر کا ماحول خالص علمی اور مذہبی تھا۔ برطانوری سامراج میں آپ کے دادا فارسی کے مشہور ادیب تھے، زمین دار اور انگریزی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی پر مامور تھے۔ آپ کے بڑے بھائی بھی با تخلص فارسی داں شاعر تھے۔ مشاعروں میں شرکت کرتے۔

تعلیم و تربیت اور چند مشہور اساتذہ:

مفتی حسن منظر قدیری صاحب قدس سرہ کی پہلی تعلیم گاہ ، گاوں کا مکتب تھا۔ اسی زمانے میں نصیر ملت حضرت علامہ پیر نصیر الدین اشرفی (پناسی) علیہ الرحمہ کی موجودگی سے مدرسہ عارفیہ چنامنا اسلام پور کا پورے ملک میں غلغلہ تھا، طلبہ تلاش علم میں لمبی لمبی مسافتیں طے کرکے زانوے علم و ادب تہ کرنے آتے، آپ نے موقع غنیمت سمجھا اور اپنے آپ کو نصیر ملت علیہ الرحمہ کے سپرد کریا۔ بچہ گھر کا تھا، ذہین اور شوقین تھا، پیر صاحب نے پڑھایا بھی اور پلایا بھی۔ کچھ سالوں بعد ”ھل من مزید“ کی پیاس لیے دار العلوم حمیدیہ ، بنارس تشریف لائے۔

یہاں آپ کو قاضی شمس الدین جون پوری ، مولانا سلیمان بھاگل پوری قدس سرھما جیسے یگانہ روزگار اساتذہ سے اکتساب علم کا موقع ملا۔ صبح بنارس کی رنگینی آپ کے علمی سفر کو تھما نہ سکی۔ شوق علم تھا ، جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، ایک پیاس تھی کہ جتنی سیرابی ہوتی، اس کی شدت بڑھتی جاتی تھی۔ تلابوں اور ندیوں کے بعد آپ کو سمندر کی جستجو ہوئی۔ آخر کار ، اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا قائم کردہ ، ملک کی مشہور و معروف درس گاہ ”منظر اسلام“ بریلی شریف تشریف لے آئے۔

یہاں بحر العلوم حضرت مفتی افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ کی درس گاہ پورے شباب کے ساتھ علمی جلوے بکھیر رہی تھی ۔ آپ نے مفتی صاحب سے صدرا، مسلم الثبوت، ملا حسن ، حمد اللہ ، قاضی مبارک ، توضیح تلویح، شرح چغمینی ، شمس بازغہ ، اقلیدس ، ہدایہ ، بخاری شریف وغیرہ جیا منتہی کتابیں پڑھی۔ مشکاة اور صحاح ستہ کی باقی کتب کے درس حضرت محدث احسان علی مظفر پوری سے لیا۔

یہیں 1966ء میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہوئے اور اسی سال دستار بندی ہوئی۔ جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات بھی دیے۔ علی گڑھ ہی سے انگریزی زبان میں گریجویشن بھی مکمل کیا۔ آپ سرکار مفتی اعظم ہند علامہ مصطفٰی رضا خان علیہ الرحمہ ،بریلی شریف کے اجل خلفا میں سے تھے۔ ناک نقشہ : (حلیہ مبارک، میری آنکھوں نے جو دیکھا) حضرت مفتی صاحب کی شکل و صورت کا نقش و نگار وہی تھا ، جو ملاقات سے پہلے میرے ذہن و دل میں پتھر کی لکیر کی طرح منقش ہو گیا تھا ۔

بدن دبلا پتلا ، چہرہ گورا ، وجیہ اور علمی شان لیے ، سر مبارک چاند جیسا گول جس میں گودا ہی گودا بھرا تھا، سینہ چوڑا اور کشادہ ، ریش مبارک با رعب ، رخسار ایک دم سپاٹ ، ناک لمبی ، پیشانی چوڑی اور کشادہ ، دیکھنے سے ایسا لگے گویا قصر خسروی کی بلند و بالا دیوار پر شاہی تختی آویزاں ہو، قد میانہ، جسمانی پھرتیلا پن ایسا کہ آج کی جواں نسلوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے ، جھکی ہوئی آنکھیں ، جو ہمیشہ کتابوں کے اوراق کی جستجو میں رہتی تھی۔

لباس عالمانہ زیب تن فرماتے ، چلتے تو دس بیس میں بھی ممتاز نظر آتے ، آواز کڑک دار اور فصیح ہوتی، ایک بار بولتے تو وضاحت کی کم ہی ضرورت پڑتی ، ”پہلے تولو، پھر بولو“ والا لہجہ گفتگو کوئی آپ سے سیکھے! آن واحد میں ما فی الضمیر کی ادائیگی کے لیے بہترین الفاظ و جملوں کا چناو کر لیتے۔ تقریر بھی آپ کی ویسی ہی ہوتی تھی۔ ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ نجی محفل ہو ، رشتے داروں میں ہوں ، علما کی مجلس ہو یا طلبہ کے جھرمٹ میں ہوں ، گھر پر ہوں یا سر بازار ، باتیں علمی ، طرح دار اور مبرہن ہوتیں ، بسا اوقات جوابی اور الزامی طرز تکلم اپناتے ۔ پر لطف اور سجیلے جملوں سے محفلیں زعفران زار ہو جاتیں۔ کہتے ہیں، ”بھرے ہوئے برتن کم بجتے ہیں“۔

حضرت مفتی صاحب قبلہ کو میں نے ذاتی باتیں کرتے ہوئے بہت کم دیکھا، ان کے ہیولہ میں انا پرستی ، غصہ ، ٹھٹھا مخول ، چغل کی جگہ بھی علم ہی بھرا تھا۔ حیات زرین کا ادبی و تصنیفی گوشہ: آپ کی زبان کلاسیکی ادب سے لیس تھی۔ ادب کا ذوق مکتب سے ہی چڑھا تھا۔ اپنی خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں: ”میری علاقائی زبان اردو نہیں، میں نے اردو سیکھی اور اردو کا ذوق پیدا کیا۔ میری ادبی زندگی کا طالب علمی ہی کے دور سے آغاز ہوا۔ جب مکتب میں پڑھ رہا تھا، تبھی سے اخبار و رسائل پڑھنے کا میرا مزاج رہا“۔

شروع میں ”نوری کرن“ بریلی سے مضمون چھپے ، مضامین کا عوام اور اہل علم و دانش میں اچھا تاثر گیا۔ اس کے بعد ماہنامہ ”پاسبان“ الہ آباد، ”ہدی“ دہلی، ماہنامہ ”نور مصطفٰی“ پٹنہ، ”مظہر حق“ بدایوں، ماہنامہ ”اعلی حضرت“ بریلی ، ”کنز الایمان“ دہلی ، ”ماہنامہ ”بطحا“ حیدر آباد وغیرہ میں مسلسل مضامین و مقالات شائع ہوتے رہے۔

تصانیف کی شکل میں آپ کی چند قلمی یادگار درج ذیل ہیں:

1: تقدیر کائنات، 2: چراغ راہ

3: عکس جمیل

4: تجلیات شرف

5: نماز؛ اہل ایمان کی معراج

6: ہجرت؛ اسلامی ماہ و سال کے اجالے میں

7: میت؛ کفن سے دفن تک

8: شخص و عکس

9: کنزالایمان ، صحیفہ زبان و بیان

، 10: فتاوی

، 11: منظومات اور دوسو کے قریب مضامین و مقالات۔

آپ بہترین نقاد ، سلجھے ہوئے قلم کار اور ”عشق رسول ﷺ میں انگ انگ ڈوبا ہوا“ شاعر تھے۔ شعر و ادب کی تمام اصناف سے واقف کار ہوتے ہوئے بھی آپ نے مجازی شاعری سے ذہن و دل پراگندہ نہیں کیا؛ بلکہ جب بھی موقع ملا، عشق رسول ﷺ میں سرشار ہو کر نعت کے اشعار کہے۔

نمونے کے طور پر چار شعر ملاحظہ ہوں ۔ ؎

نظر جس دن سے ہم نے روضہ انور پہ رکھی ہے گماں ہوتا ہے کہ ہستی مہ و اختر میں رکھی ہے غبار کہکشاں کو رشک ہے تقدیر پر میری کہ پاے مصطفٰی کی دھول میں نے سر پہ رکھی ہے ہر ایک آدمی ہے غم و رنج کا اسیر یہ دور حادثات کا زنداں دکھائی دے منظرؔ اسی کا نام ہے تکمیل زندگی خود اپنی ذات خواب پریشاں دکھائی دے

یادگار صحبتیں اور حضرت کی کرم نوازیاں:

اگست 2021ء میں ایک ہفتہ حضرت کے ساتھ جامعہ نوریہ گلشن زہرا للبنات، سبرام پور، اتر دیناج پور، بنگال میں پڑھانے کا شرف ملا۔ پڑھانے کا کیا! حضرت سے اکتساب فیض کے لئے ہی میں نے حامی بھری تھی۔ ملک کے بڑے بڑے اداروں میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد حضرت مفتی صاحب آخری دور میں اسی ادارے کو اپنا آخری درس گاہ منتخب فرمایا تھا۔ دوران تدریس حضرت سے مختصر ملاقاتیں ہو جاتیں ؛ بلکہ یوں کہیے کہ میں عمدا حضرت کے حجرے میں آجاتا۔

(1): حیدر آباد سے حضرت مفتی ذاکر حسین فناء القادری مصباحی صاحب نے سیمانچل کے علما کا تعارفی سلسلہ شروع کیا تو میں نے موقع غنیمت جان کر مفتی صاحب سے اپنے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کی گزارش کی۔ تعاون تو کیا کرتے، الٹے سختی سے منع کر دیے۔ اور فرمانے لگے: ”لوگوں کے نام نہیں ، کام بولتے ہیں“۔ اس کے بعد اور کئی بار کوشش کی ؛ لیکن ہر بار جواب میں مجھے منہ کی کھانی پڑی۔

(2) : ناشتے میں بیٹھے بیٹھے ایک بار ہمت کرکے پوچھ بیٹھا۔ حضور! آپ کے فتاوی شائع ہوجائیں تو قوم و ملت کو ایک سرمایہ فراہم ہو جائے گا۔ انتہائی لا ابالی پن سے فرمانے لگے: ”ہمارے پاس فتاوی رضویہ موجود ہے، مزید کسی فتوے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ فتاوی امجدیہ ، فتاوی مفتی اعظم ہند ، فتاوی فقیہ ملت لائیبریوں میں ہیں، بحر العلوم ، شارح بخاری اور تاج الشریعہ علیہھم الرحمہ کے فتاوی بھی چھپ چکے ہیں۔ اتنے فتاوی قوم کہاں رکھے گی!“۔ اسی سلسلے میں فرمانے لگے: ”میرے سیکڑوں فتووں پر حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا علیہ الرحمہ کے دست خط موجود ہیں“۔

(3) : فروری ، 2022ء میں آپ کے پاس پڑھ رہیں طالبات کی رداء پوشی ہونی ہے۔ آپ کو بہت خواہش تھی کہ اس موقع پر آپ کی کوئی کتاب شایع ہو۔ میں نے ایک بار اسی خواہش کا تذکرہ کیا تو بہت خوش ہوئے اور ”کنز الایمان: صحیفہ زبان و بیان“ کا مسودہ پیش فرمایا۔ فرط شوق میں ایک ہی بیٹھک میں پوری کتاب پڑھ لی۔ وہ صرف ایک کتاب نہیں تھی ، علم و ادب کا سر چشمہ تھا، جس سے علوم و فنون کے کئی سوتے پھوٹے تھے۔ میں حضرت کے ”تحقیق کا فن “ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس میں کنز الدقائق علیہ الرحمہ نے سورہ فاتحہ کے ترجمے کا نہایت الگ انداز میں تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔

(4) : ایک بار کسانوں کی زمینوں کے تعلق سے بحث ہو رہی تھی۔ سیمانچل میں رواج ہے ، لوگ پیسے لے کر زمین گروی رکھ لیتے ہیں۔ پیسے دینے والے اس زمین سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ شریعت کی روشنی میں ناجائز و حرام کام ہے۔ چوں کہ یہ پورے سیمانچل میں عام ہے۔ اس بات کا ذکر کرکے میں نے تشویش کا اظہار کیا۔ مفتی صاحب فرمانے لگے : ”اس کی بھی جواز کی ایک صورت موجود ہے“۔ یہ سن کر میرے اندر جو خوش گوار کیفیت پیدا ہوئی ، وہ بیان سے باہر ہے۔ فورا بیاض لے آیا اور املا کرانے کی فرمایش کی ، حضرت نے شروع بھی کرایا۔ خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ دوسرے دن حضرت کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی۔ یہ مرض الموت کا غالبا پہلا حملہ تھا۔

(5) : ایک دن ناشتے میں بیٹھے بیٹھے، فقیر نے جامعہ کی طالبات کی جانب سے سالانہ ”مجلہ“ کی اشاعت کی بات چھیڑ دی۔ یہ سن کر آپ ناشتے سے ہاتھ کھینچ لیے اور ہمہ گوش ہو گئے۔ میں نے چہرے پر پہلی بار اتنی بشاشت دیکھی۔ مسرت کا اظہار فرمایا۔ ”المجاہد“ اور ”القدیر“ نام کی تجویز رکھی تو کچھ خفگی سے فرمایا :”نہیں! ”الزہراء“ یا ”گلشن خواتین“ نام رکھ لیجیے! “۔ یہ دونوں نام واقعی ادارہ اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے مناسب تھے۔

(6): حضرت کنز الدقائق کی طبیعت کی ناسازی پر ، میں نے حضرت ہی کی درس گاہ سے تدریسی سلسلہ شروع کیا تھا۔ آپ رو بصحت ہوتے ہی پڑھانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اب ایک درس گاہ کا مسئلہ درپیش ہوا۔ صبح بیٹھ کر اساتذہ اسی مسئلے پر غور و خوض کر رہے تھے کہ میں مفتی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نے کمرے ہی میں چٹائی بچھائی ہے ، چادر ڈالے ہیں اور بیٹھ کر طالبات کو بلا بھیجا ہے۔ یہ نیاز اخلاص کوئی ملازمت کا حصہ نہیں تھا، یہ پیارے آقا ﷺ کی حدیثیں پڑھانے کی امنگ تھی، نور علم پھیلانے کا جذبہ صادق تھا۔

(7): حضرت کی زیر سرپرستی ایک طالبہ کی پھوپھی ، بہادر گنج کے علاقے میں انتقال کر گئی۔ مدرسے سے اس کے گھر کی پچاس کلومیٹر سے زائد کی مسافت تھی۔ اس طالبہ کا گاڑی میں تنہا جانا مناسب نہیں تھا۔ مفتی صاحب قبلہ کچھ فکر مند نظر آئے۔ میں نے عرض کیا ، ”حضور! اجازت دیں تو میں چلے جاتا ہوں“۔ میرے ارادے سے مفتی صاحب بہت خوش ہوئے اور بانی جامعہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام نوری صاحب سے کہنے لگے: ”بڑے کام کا لڑکا ہے، ہر کام میں آگے رہتا ہے۔کہاں سے ملا ہے یہ؟“ مولانا نے فرمایا: ”ہوم پروڈکٹ ہے“۔ دونوں بزرگوں کے مشفقانہ جوابات سے میں بہت لطف اندوز ہوا۔

(8): پہلی تفصیلی ملاقات میں ، میں نے آپ کی کوئی تصنیف دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ طالبات سے کتابیں منگوائی ، پر وہ نہیں ملیں۔ پورے مدرسے میں اعلان کروایا، اتفاق سے کسی کے پاس اس وقت آپ کی تصنف موجود نہیں تھی۔آپ کو اتنی سی بات کا بہت قلق ہوا۔ آخر کار مجھے کہیں سے آپ کی تصنیف ”میت : کفن سے دفن تک“ دست یاب ہوئی۔ آپ بہت خوش ہوئے۔

(9) : میری دلی خواہش تھی کہ میرا نکاح آپ پڑھائیں۔ ڈرتے ڈرتے ایک دن اس خواہش کا اظہار کر دیا۔ نہ جانے کس دھن میں تھے! بار بار یہ شعر پڑھنے لگے اور کچھ جواب نہ دیا۔ ؎ یاد میری سنبھال کر رکھنا ! میرا کیا ، میں رہا ، رہا ،نہ رہا

(10) : باتیں اور بھی ہیں، آخری یاد قلم بند کر دیتا ہوں۔ حضرت کنز الدقائق علیہ الرحمہ جماعت رضاے مصطفٰی ، شاخ اتر دیناج پور کے کاموں سے بہت خوش تھے۔ اراکین بھی حضرت سے اکثر صلاح لیتے تھے۔ تحریک کی جانب سے ”تجہیز و تکفین تربیتی کیمپ“ کے انعقاد کی تجویز پیش ہوئی۔ حضرت کے سامنے بات رکھی گئی تو کئی مفید مشورے عطا فرمائے۔ پہلےتربیتی کیمپ میں آپ کو ”تربیت“ کے لیے دعوت دی گئی۔ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شرکت نہیں کر پائے؛ لیکن اراکین کے سارے مسائل حل ضرور کر دیے۔

وہ اس طرح کہ عوام کے سامنے پریکٹیکلی تجہیز و تکفین کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے ویڈیوز دیکھ کر کاپی پیسٹ کر لینا ، غیر ذمہ دارانہ کام ثابت ہوتا۔ مفتی صاحب مرحوم نے اپنی تصنیف ”میت: کفن سے دفن تک “ فراہم کردی ، اس کی مدد سے کام بہت حد تک آسان ہو گیا۔

7/ جنوری 2022ء کو، عین جس وقت پورے بنگال اور بہار کی مساجد میں جمعہ کے لیے لوگ جمع تھے، علم و معرفت کا یہ سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا اور تاریکی بڑھا گیا۔ کنز الدقائق مفتی حسن منظر قدیری صاحب علیہ الرحمہ کے انتقال کا خلا پُر ہونا مشکل ہے۔

آپ اسلاف کی آخری نشانی ، علم و عمل کے کوہ ہمالہ اور اپنے اساتذہ کی آخری یاد گار تھے۔ مولا تعالی حضرت کے درجات کو بلند و بالا کرے اور آپ کی قبر انور پر کروروں رحمتیں نازل فرمائے ! اللھم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

از قلم : انصار احمد مصباحی

مصباحی رکن: جماعت رضاے مصطفٰی

اتر دیناج پور۔ (مقیم حال ، پمپری ، پونے)

9860664476

aarmisbahi@gmail.com

زکوٰة احادیث کے آئینے میں
معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار

ان مضامین کوبھی پڑھیں

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن