تجلیات رفیقِ اعلیٰ حضرت بنام نقوش لطیفی قدوۃ العلماء زبدۃالفضلاء سراج السالکین شمس العارفین برہان العاشقین حضرت مولانا الشاہ حفیظ الدین لطیفی برہانی کٹیہاری علیہ الرحمہ کے
از: مولاناابوضیاغلام رسول سعدی کٹیہاری
(مزار مقدس) مردم خیز خطہ رحمن پور بارسوئی، کٹیہار بہارمیں واقع مرجع عوام وخواص ہے۔
نام: حفیظ الدین تخلص :لطیفی ولادت باسعادت:1245ھ والد کانام:شیخ حسین علی۔ مولدومسکن:چشتی نگر، کنہریاضلع پورنیہ بہار۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کے والدماجدشیخ حسین علی نوراللہ مرقدہ ایک دیندارورئیس اور بہت اثر و رسوخ کے حامل ومعززانسان تھے۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ نے جب ہوش سنبھالاتووالدماجد کاانتقال ہوچکا تھااب اکیلی ایک ماں تھی جس کے کاندھےپرآپ کی پرورش اور تعلیم وتربیت کا بوجھ پڑا۔
تعلیم وتربیت:
حضرت لطیفی علیہ الرحمہ جب سن شعور کو پہونچےتوگھریلو مکتب میں تعلیم و درس کا آغاز کیا۔
شادی اور اولاد:
تحصیل علوم سے فراغت کے بعدپٹنہ سیٹی متصل بہ تکیہ عشق میں مقیم تھے۔اسی دوران وہاں کے کسی قریبی شخص کےذریعےمگڑاواں بہار شریف میں جناب سیدعبدالکریم صاحب مرحوم کی لڑکی سےآپ کی رسم شادی خانہ آبادی طے ہوئی۔ جناب سید صاحب ایک دینداراور پاکیزہ اوصاف وخصائل کے مالک، لیکن مالی لحاظ سے کمزور انسان تھے۔ مگر چوں کہ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کو انتخاب میں دین پرور مذہب پسندخاندان مطلوب تھا۔ سووہ سادات گھرانے کی صورت میں موجود تھا۔ اس لیے بصدرضاورغبت اس رشتے کو قبول فرمایا۔ اور پھر بہر نوع اس کے حقوق وفرائض کی ادائیگی میں تادم آخر اسوہ رسول کی پیروی کی، آپ کی چھ اولادیں ہویں۔ تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں،صاحبزادوں کے نام حسب ترتیب یوں ہیں۔
(1) حضرت مولانا امام مظفر حسین
(2) حضرت مولانامخدوم شرفُ الہدیٰ
(3) حضرت مولاناخواجہ وحیداصغرعلیہم الرحمہ و الرضوان۔
بیعت وخلافت اور مرشد:
بیعت وخلافت کی سعادت سےدوران تدریس ہی میں آپ منسلک ہوئے۔ پٹنہ سیٹی میں دریائےگنگاکے ساحل پرپُرسکون محلہ”متن گھاٹ “آباد ہے۔یہاں اڑھائی صدی قبل ایک مرد درویش وصاحب دل صوفی اور ممتاز ترین اہل دیوان شاعرحضرت سیدنا مولانا شاہ رکن الدین عشق علیہ الرحمہ (متوفی ۱۲۰۳ھ) نے ایک خانقاہ بنام”خانقاہ عشق” کی بنیاد رکھی، اور سجادہ فقر و تصوف بچھاکر باطنی امراض کا مداوا شروع فرمایا۔ ان کے بعدِوِصال ان ہی کی نسل اور حسب نسب کے لائق وفائق افرادورجال اس مبارک سلسلے کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت مولاناشاہ خواجہ لطیف علی علیہ الرحمہ کا مقدس زمانہ آیا۔
حضرت لطیفی علیہ الرحمہ ان ہی بلند پایا بزرگ سے وابستہ ہوئے ۔اور ان کی صحبت میں بارہ سال رہ کرمنازل سلوک وجادہ طریقت سے آشنائی حاصل کی۔ ہم درس مشائخ واساتذہ کرام: اپنے دیار میں ابتدائی فارسی وعربی درجات کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیےفرنگی محل لکھنؤ کارخ کیا۔ فرنگی محل کی درس گاہ ان دنوں معیار و شہرت کے لحاظ سے ہفت افلاک کو چُھو رہی تھی۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ وہاں پہونچےتو بحر الاسرار حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی سکندرپوری ثم غازی پوری، حضرت مولانا سید شاہ شہود الحق بہاری، حضرت مولانا فاروق چڑیا کوٹی علیہم الرحمہ جیسے نہایت ذہین وذی استعداد اور شریف و مخلص ہمدرس ملے۔ آپ نے فرنگی محل کے اساتذہ کے پاس ایک عرصہ دراز تک زانوئے ادب طے کیا۔ بعدہ تکمیل تعلیم کے لیےدہلی کا سفر فرمایا اور یہاں حضرت مولانا شاہ مخصوص الله و حضرت مولانا شاہ موسیٰ علیہما الرحمہالرحمہ سے شرف تلمذ حاصل کیااور دستاروسند سے سرفراز ہوئے۔
دینی خدمات وتصنیفات:
مدرسہ شاہجہاں پور یوپی، مدرسہ مجگواں بھاگل پور، مدرسہ و خانقاہ کبیر یہ سہسرام، مدرسہ اساقتِ رحمت محمد یہ اسٹیٹ پورنیہ میں برسہابرس تعلیم دی۔ اور سینکڑوں و ہزاروں طالبان علوم نبویہ کے قلب وجگر کو دولت علم ومعرفت سے مالامال فرمایا۔ مدرسہ و خانقاہ کبیر یہ سہسرام آپ کی تدریسی زندگی کے اہم پڑاؤ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں آپ نے کم وبیش بارہ سال تک بطور صدرالمدرسین ومہتمم قیام فرمایا۔اور اپنے علمی و قلمی ،اخلاقی وباطنی محاسن واوصاف کےلازوال اثرات ونقوش ثبت کیے۔ درس وتدریس کے علاوہ یہاں آپ نےکار افتاء وتصنیفات وتالیفات نیز تبلیغ وارشادکابیش بہا کارنامہ بھی انجام دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہیں آپ کی علمی شخصیت نے اپنے حیرت انگیزکمالات وحسنِ استعدادکے جلوئے دکھائے۔ یہاں آپ کی درس گاہ فیض بخش میں جس نے بھی خوشہ چینی کی، وہ بڑے صاحب فضل وکمال بن کرنکلےاور دین و دنیا میں عظیم مراتب پر فائز ہوئے۔ ان حضرات کی لمبی فہرست ہےصرف دو نامور وبلنداقبال ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ایک ہیں جامع معقول ومنقول حضرت مولانا محمد عثمان شاہ آبادی سابق مدرس اول مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ، جو اپنی تصنیفات وتالیفات اور تدریسی تجربہ کے سبب عرب وعجم میں متعارف ہوئے۔ اور علمی و فکری دنیا میں بہت نام کمایا۔مولانا موصوف منطق وفلسفہ میں قابل رشک عبور رکھتےتھےان فنون میں آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں ہیں۔ اہلِ حجاز کے اصرار پر جب آپ مدرسہ صولتیہ وارد ہوئے تو وہاں جی کھول کر تصنیفی کام کیا۔ ایک قلیل مدت میں”حمد الله”،،صدرا،، اور ان جیسی دیگرکئ اونچی اونچی کتابوں کی شرح و حاشیہ اپنے قلم خشک خرام سےرقم فرمائی۔
دوسرے ہیں فخر العلماءوالمحدثین حضرت مولانا فرخند علی فرحت سہسرام (والدماجد مولانا کامل سہسرامی) بانی دارالعلوم خیریہ نظامیہ سہسرام، جو فقہ وافتاء اورتفسیر وحدیث میں بے نظیر بصیرت کے حامل تھے۔ شمال مشرقی ہندکے معاصرارباب فقہ وافتاءآپ کو قدرووقارکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اور بروقت ضرورت آپ سے استفادہ ومراجعت بھی کیا کرتے تھے۔ مدرسہ خیریہ نظامیہ سہسرام کی درس گاہ سےآپ نے کثیر نابغہ روزگار علماء،فضلاء پیدا کئے ہیں۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ نے تصنیفات وتالیفات کا مشغلہ بھی یہاں خوب زورشور سے جاری رکھا۔ فارسی وعربی شعروادب پرایک ضغیم دیوان “دیوان لطیفی” تصوف کے اسراوررموزپر مشتمل “لطائف حفظ السالکین”درس نظامیہ کی معروف نصابی کتاب”میزان منطق”کی نہایت عمدہ محققانہ اور مبسوط شرح “فوائد نوریہ”وغیرہ زیور تحریر سے آراستہ ہوئی۔
بعض مشہور رفقاء:
”تحریک جدَوَہ درْرَدِّتحریک ندوۃ” کےحوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضابریلوی، تاج الفحول حضرت علامہ عبدالقادر بدایونی،اور حافظ بخاری حضرت علامہ عبدالصمد سہسوانی علیہم الرحمہ کے ساتھ آپ کی قربت اور ہم مجلسی کا ثبوت ملتا ہے واقعہ یہ ہے کہ جب تحریک ندوۃکی شرانگیزی وفتنہ سامانی حدسےفزوں ہوئی تو ان مذکورۃ الصدر حضرات نے اس کے بالمقابل تحریک جدوہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کے پلیٹ فارم سےاصلاح امت اور دین کاکام شروع فرمایا۔ اس مہم کی بھر پور کام یابی کے لیے چوں کہ ہم فکروخیال افرادورجال کی ضرورت تھی اس لیے ان بزرگوں نےملک بھرکے طول وعرض سےاکابرواعاظم علماء ومشائخ اہل سنت کو اس تحریک سے جوڑناچاہا۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ اسی موقع پر ان حضرات سےقریب ہوئےاور پھر رفتہ رفتہ ان بزرگوں کےدرمیان باہمی وابستگی استوارہوئی۔
مزید اس تعلق سےسےمرقوم ہے کہ ندوۃ العلماء کے خلاف جب تحریک جدول کی بنیاد پڑی تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں جلسے اور کانفرنس ہوئیں اور کافی زور و شور سے اس کی مخالفت ہوئی۔اس مخالفت میں مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی برہانی رحمن پوری، کٹیہاری علیہ الرحمہ بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے دوش بدوش شریک سفر اور رفیق کاررہے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اس تحریک میں شامل ہو نے کے لئے آپ کو خصوصی دعوت نامہ پیش کیا جس کا ذکر حضرت علامہ قاضی عبدالوحید فردوسی عظیم آبادی نے اپنی کتاب دربار حق وہدایت میں کیا ہے۔
اس کا اقتباس پیش کرتے ہوئے نبیرہ حضور خواجہ حفیظ الدین لطیفی برہانی حضرت علامہ مولانا خواجہ ساجد عالم مصباحی لطیفی “حیات حفیظی” میں رقم طراز ہیں۔ ”ملک گیر سطح پر بڑے بڑے مرکزی شہروں پٹنہ، کلکتہ، بنگلور، مدراس وغیرہ میں عظیم الشان وتاریخ ساز جلسے و کانفرنس ہوئیں۔ پٹنہ میں ہفت روزہ اجلاس منعقد ہواجو5تا11 رجب المرجب1318ھ کی تاریخوں میں تھا۔ اس میں ملک بھر کے 313چیدہ چیدہ اعاظم علماء ومشائخ کرام مدعو کیے گیے۔ مشرقی بہارکی نمائندگی کے لیے محب الرسول تاج الفحول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی، اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے حضرت لطیفی برہانی علیہ الرحمہ کا انتخاب فرمایا۔ اور دعوت شمولیت وشرکت دی۔ حضرت لطیفی علیہ الرحمہ شرکت کے لئے پٹنہ تشریف لے گئے۔ اور اجلاس کی ساری کارروائیوں اور سرگرمیوں میں نمایاں حیثیت سے اختتام تک شریک رہے۔ پھر آپ یہاں سے کارروان جدوہ کا مستقل حصہ بن گئے اور مدراس کے آخری اجلاس تحریک منعقدہ 1920تک متحرک وفعال ہوکر شریک رہے۔ (حیات حفیظی ص23)
آخری بات:
حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی برھانی علیہ الرحمہ اہل سنت وجماعت جِسے آج کی اصطلاح میں(بریلویت)کہاجاتاہےکہ صراط مستقیم پرنہ صرف گامزن بلکہ اس کے بہادر سپاہی اور سرفروش مردمجاہدتھے۔ چودہویں صدی ہجری میں مجدد اسلام اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی، شیخ المشائخ مخدوم الاولیاء حضرت مولانا سیدعلی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، تاج الفحول علامہ عبدالقادر بدایونی، بحرالاسرارحضرت شاہ عبدالعلیم آسی غازی پوری، شیخ الاسلام حیدر آبادی وغیرہم کی ذوات قدسیہ سے عالمی سطح پراہلسنت وجماعت کی پہچان بنی حضرت لطیفی علیہ الرحمہ اسی نورانی قطار کے ایک فرداوراسی زریں سلسلے کی ایک اٹوٹ کڑی ہیں۔ اس مشرقی بہاردیارپربہارمیں آپ ہی کی ہستی باکمال اہلسنت وجماعت کی علامت وشناخت سمجھی گئی ہے۔ اور گم گشتگان منزل نےآ پ ہی کے نقش قدم پرچل کر نشان مقصود کوپالیاہے۔
کرامات لطیفی،حفیظی، کٹیہاری
(1) رنگ پور بنگلہ دیش کے علاقے میں مونی مہات نام کا ایک ماہر جادو گررہتاتھا جواپنے جادوٹوناسےاپنے علاقے کے لوگوں کوبہت پریشان کرتا تھا اور طرح طرح کی مصیبتوں کے جال میں پھانس لیتا تھا، لوگ اس کی حرکت ودفاع سے عاجز تھے ایک دفعہ حضرت لطیفی کا گزراس علاقے سے ہواپریشان حال ومصیت زدہ لوگوں نےاس جادو گر کے تعلق سے ساری باتیں آپ کو بتائیں اور اس کے ظلم و ایذارسانی پر قدغن لگانے کے لئے آپ سے درخواست کی۔ چنانچہ ایک دن آپ نےجادوگر کے گھرکارخ کیا۔ مونی مہات نے جوں ہی آپ کو اپنی طرف آتے دیکھاآگ کابان آپ کی جانب پھینکا آپ نے اپنی پگڑی میں اسے لپیٹ لیا۔اور پھر آپ نے اپنی پگڑی اس کے گھر کی سمت اچھالی جوشعلہ جوّالہ بن کرگھرکی چھت کا طواف کرنے لگی۔مونی مہات اب تک اتنا دیکھ ہی سکاتھا، گھبرا کربےتابانہ دوڑپڑا،اورآ پ کے قدموں سے لپٹ گیا۔ حضرت لطیفی نے پہلے اسے توبہ کرائی۔اور جادوئی عمل سے باز رہنے کی ہدایت کی، پھر اپنے حلقہ ارادت میں لیکرصالح مسلمان بن جانے کاراستہ دیکھایا۔
(2) حضرت لطیفی ایک بار گلاب باغ سےسےبذریعے ریل گاڑی رحمن پور کے لئے روانہ ہوئے۔ راہ میں مہانندہ دریا آیا جب آپ کی بیل گاڑی دریا کے کنارے آئی تو دیکھاگیا کہ دریا میں زبردست طغیانی ہےہے اور بغیر کشتی دریا پاراترنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ سوئے اتفاق کشتی دوسرے کنارے پر تھی۔ اور کوئی ملاح یا آدمی بھی کہیں موجود نہیں تھا۔ گاڑی بان یہ منظر دیکھ کر بہت رنجیدہ اوراوراور فکر مندہوا اور آپ سے عرض کرنے لگا حضور! دریا کے پانی اور موج کایہ حال ہے اور ناؤ بھی کنارے پر نہیں ہے، اب سوائے واپس لوٹنے کےاورکوئی چارہ کار نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ پر بھروسہ کرو اور فکر مندنہ ہوہو، میں جیسے کہوں اسی کے مطابق عمل کرتے چلو، تم پہلے اپنی آنکھوں کو بند کر لوپھر دونوں بیل کی پونچھ تھام لو اور بسم اللہ پڑھ کر بےدھڑک گاڑی دریا میں اتار دو، گاڑی بان نے ویساہی کیا اور نہ آسانی دریا پاراترگیا، گاڑی بان کو جب آنکھیں کھولنے کا حکم ہواتووہ باسلامت و عافیت دوسرے کنارے پر تھا۔ نہ بیل پر بھیگنے کے نشانات تھےاور نہ گاڑی پر ترہونےکےآثار۔ (سہ ماہی پیغام مصطفیٰ جنوری تامارچ2022تامارچ2022گوشئہ لطیفی:از مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی، استاد مدرسہ و خانقاہ لطیفیہ رحمن پور، کٹیہار بہار) اللہ پاک بطفیل حبیب پاک ﷺ حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی برہانی علیہ الرحمہ کے فیضان سے ہم سب کو مالامال فرمائے۔
(نوٹ: اس مضمون کو ترتیب دینے کی وجہ یہ بنی کہ”2022ءاشرفی جنتری” میں “مختصرحیات حفیظی علیہ الرحمہ” شامل کرنے کےلیےمجھ فقیر کو حضرت مولاناابومحامد الحاج آل رسول احمد اشرفی کٹیہاری (مقیم ناگ پور) نے لکھنے کے لیے میرے پاس فون کیا مگر میرے پاس کوئی کتاب یامضون نہیں تھاتومیں نے صاحبزادہ والاتبار حضرت علامہ مولانا خواجہ ساجد عالم مصباحی لطیفی حفظہ اللہ کو فون کیااور مقصد کااظہار کیا توآپ نےبخوشی بذریعےواٹشیپ چند صفحات ارسال فرمائیں جن سےمضمون تیار ہوگیا۔اور الحمد للہ رب العالمین “الاشرفی جنتری 2022ء” مختصر سوانح لطیفی کے ساتھ منظر عام پر دستیاب ہے۔
جن حضرات کو چاہئے وہ ان نمبر پر رابطہ فرمائیں 8618303831/7282896933
فقط:ابوضیا غلام رسول سعدی آسوی اشرفی رضوی کٹیہاری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمين حضرت علامہ مفتی سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی و
حضور قائد ملت وکیل اشرفی اولاد غوث الاعظم نبیرہ سرکارکلاں شہزادہ حضور شیخ اعظم حضرت علامہ مولانا سید شاہ محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی
استاذالعلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انوار الحق نوری مصطفوی خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند، لیچی باغ، بریلی شریف
مقام، بوہرپوسٹ، تیلگو، ضلع کٹیہاربہار خطیب وامام فیضان مدینہ مسجد علی، بلگام کرناٹک انڈیا