واقعۂ کربلا کا درسِ زرّیں
یادیں ہماری تاریخ کا لازمہ ہیں۔ زندہ قومیں یادوں کے زرّیں نقوش پر ارتقا کی منازل طے کرتی ہیں؛ اور اپنے قومی وَقار کو بلند کرتی ہیں۔ نئے اسلامی سال کے عشرۂ اول کے سِرے پر شہادتِ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور واقعۂ کربلاکی یاد منائی جاتی ہے۔ ہر سال یادوں کے تابندہ نقوش اجاگر کیے جاتے ہیں؛ اور نسلوں کے لیے عزم و حوصلے کا سامان مہیا کیا جاتا ہے-
یادِ امام حسین و شہدائے کربلا رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سال بہ سال منانے سے کیا فائدہ؟
یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں اُبھرتا ہے۔عقلی اعتبار سے:
دین متین آخری دین ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ اس لیے دین کا نظام و ضابطہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس سے مکمل ہوگیا۔ قوانینِ اسلامی میں تغیر و تبدّل کا امکان بھی متصوّر نہیں۔
جس کا حسی نتیجہ نکلا کہ ’شریعت‘ کے معاملے میں کسی طرح کی’نئی صورت‘ قابلِ قبول نہیں اور یہ دین کے فطری اُصولوں کے عین مطابق ہے کہ؛ شریعت پر استقامت اختیار کی جائے۔ شریعت کے قصرِ بلند کو اس کی اصل صورت پر باقی رکھا جائے- اس کے چہرے پر غبار نہ آنے دیا جائے- نظامِ فکرِ اسلامی کو منہاجِ نبوت کے مطابق آگے بڑھایا جائے- آمریت و ملوکیت کے غیر شرعی رُخ کو موڑ دیا جائے- اسی لیے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی اطاعت سے انکار کیا۔
یہ انکارِ بیعت ٹھوس شرعی و عقلی بنیادوں پر تھا جس کے شواہد موجود تھے۔ عزم و یقیں بہر حال ہمیں چاہیے کہ حال کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے شہادت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عزم و یقین کے بلند مینار تعمیر کریں؛ جس کی روشنی میں مشرکینِ ہند کی سازشوں کے اندھیرے دَم توڑ جائیں.
کفر کے ایواں لرز اُٹھیں- لیکن! اس راہ میں بیداری؛ شریعتِ اسلامی پر بے پناہ استقامت اور استحکام کی ضرورت ہے:
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہل بیت
(برادر اعلیٰ حضرت علامہ حسن رضا بریلوی)
✍ غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں