Friday, April 19, 2024
Homeاحکام شریعتمحرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم‎

محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم‎

از قلم: محمد دانش رضا منظری پیلی  بھیت یوپی محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم

محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم

محرم میں رائج بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم  

جب  محرم الحرام کا چاند نمودار ہوتاہے اور محرم کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد کی محفلیں گھر گھر میں سجنے لگتی ہیں، ان میں حضرت امام حسین اور آپ کے اہل و عیال اور آپ کے جانثاروں کی شہادتوں کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں اور ان پر کیے گیے مظالم و تکالیف اور اذیتوں آلام کا تذکرہ کیا جاتاہے اورانکے صبر و استقامت کا بیان کیا جاتا ہے۔

ہر مسلمان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتا ہے کوئی  آپ کے نام سے قرآن خوانی اور ذکر واذکار کرتا، تو کوئی غرباء و مساکین کو کھانا کھلاتا، کوئی آپ کے نام سے پانی یا شربت کی سبیلیں لگاتا،تو کوئی صدقہ و خیرات کرتا تو کوئی کچھڑا پکا کر ایصال ثواب کی غرض سے تقسیم کرتا تو کوئی لنگر عام کرتا۔

المختصر ہر کوئی کسی نہ کسی  طریقہ سےکار خیر کے ذریعہ آپ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے یہ تمام  افعال جائز و مستحسن  ہیں ان میں شرعا کوئی قباحت نہیں اور عند اللّٰہ ثواب عظیم کے اسباب ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ سارے افعال اخلاص کے ساتھ کیے جائیں نام و نمود اور شہرت و تشہیر مقصود نہ ہو۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  نے اپنی اور اپنے احباب کی قربانیاں دے کر ہمیں اسلام کی حفاظت و صیانت کا درس دیا ہے۔لیکن آج کے کچھ مسلمان اتنے گمراہ ہوچے ہیں کہ وہ  حق و باطل کے مابین تمیز نہیں کرسکتے، کہیں لوگ تعزیہ بناتے ہیں اور اس میں دو قبریں بناتے ان میں سے ایک قبر پر ہری چادر ڈالتے اس کو حضرت امام حسن کی قبر تصور کرتے اور ایک پر سرخ چادر ڈالتے اس کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قبر تصور کرتے

کہیں اس قدر غلو ہوتا کہ تعزیوں میں براق اور پریاں بنائی جاتیں اور اس کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے منسوب کرتے کہیں حضرت قاسم رضی اللہ عنہ  کی مہندی رچائی جاتی کہیں علم اور شدے نکالے جاتے اور ان کو گلی گلی ڈگر ڈگر نگر نگر ڈھول تاشے باجے کے ساتھ گشت کرایاجاتا اور آپس  میں موازنہ کیا جاتا ہار جیت کے مقابلے ہوتے بعض دفعہ تو سخت تنازع ہونے کی صورت میں لاٹھی ڈنڈا کا استعمال کیا جاتا اور بہت سے لوگ زخمی و نڈھال ہوجاتے ۔

بعض جگہ تو اس قدر گمراہیت کے دلدل میں غرق ہیں کہ  تعزیہ 100150 فٹ کا  بناتے اور اس کی صنعت میں لاکھوں روپیہ بے جا برباد کرتے جس کی پوری وضع و ساخت مندروں جیسی ہوتی ہےاور اس کو حضرت امام حسین کی  جلوہ گاہ  تصور کرتے ہیں کہیں تو لوگ اس لکڑی کے ڈھانچے کو حضرت امام حسین کا روضہ تصور کرتے ہیں

اور ان سے نذر و منت مانتے اور اس کا طواف کرتے اس پر چڑھاوا چڑھاتے اور اس کے سامنے 7 محرم کو نومولد بچوں کے بال تراشے جاتے اور ان مجسمہ کے رکھنے کی جگہوں پر جوتا چپل پہن کر جانے کو گناہ اور بے ادبی گمان کرتے اور دس محرم الحرام کو اسی تعزیہ کو مصنوعی کربلا میں جاکر دفن کرتے گویا یہ امام حسین کا جنازہ تھا جس کو   دفن کر دیا

دفن کرنے کی کیفیت یہ کہ اس کو ابھی بعزت تسلیم کر رہے تھے اور اس کو نمائش کے لیے رکھنے کی جگہوں پر جوتا چپل پہن کر جانے کو بے ادبی جان رہے تھے لیکن اب خود ہی جوتا چپل پہنے پہنے اس کے اوپر سوار ہیں اور اس کو توڑ  مروڑ کر برابر کردیا کچھ دیر پہلے وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی جلوہ گاہ تھا ان کے گمان کے مطابق اب اس کا حال یہ۔

  اور ایک محرم تا دس محرم کے مابین  لڑکوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر فقیر بنایا جاتا پھر اس سے گھر گھر بھیک منگوائی جاتی اور تصور یہ کرتے ایسا کرنے سے بچوں کو ان کی زندگیوں میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہوگی ۔

انتباہ 

مذکورہ افعال شرعی طور ناجائز ہیں ان کا  شریعت سے کوئی تعلق نہیں جس کے ناجائز ہونے کا ذکر ہم آگے کرینگیں بغور پڑھے اور حوالہ جات کو پڑھ کر زیادہ تفصیل کے لیے اصل کتب کی طرف رجوع کریں اور کوئی بھی ظنز کرنے والا یا تذلیل و تحقیر کرنے والا مجھ پر انگشت نمائی نہ کریں اسلئے کہ میں جو کچھ تحریر کروں گا وہ میرے خود ساختہ اقوال نہ ہونگے بلکہ معتبر علماء کرام کے اقوال اور کتب سے ماخوذ ہونگیں  ۔

مزکورہ افعال کرنے والوں نے دین کا مذاق بنا ڈالا اور شریعت کو تماشہ بنا رکھا ہے۔ شاید انہیں معلوم نہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  نے دین کو بچانے  کے لیے اپنے بیٹوں بھتیجوں بھانجوں اور احباب  کی قربانیاں پیش کی اور اپنے خون سے شجر اسلام کی آبیاری کی اس لیے نہیں کہ تم اسلام میں بے جا رسومات کو فروغ دو اور خود ساختہ رسوم پر مداومت کرو

بلکہ اس لیے قربانیاں پیش کی کہ تم اسلام کی حفاظت و صیانت میں اپنی جان و مال اور اولاد کو قربان کردینا اور جب کبھی اسلام کی حفاظت و صیانت کرنے سے  کوئی مانع درپیش ہوں تو ان کی شہادتوں کو یاد کرنا اور دین کی حفاظت اور اعلاء کلمتہ اللّٰہ کو فروغ دینے اور اس کے ابلاغ کے ذرائع کو ہموار کرنے میں اپنی عزیز ترین جانوں کو اور اموال و اولاد کو بھی قربان کردینا ایسا کرنے سے تو قاصر رہے لیکن دین اسلام کا مذاق بنانے میں پیش پیش ہیں۔

 

ایک خاص اپیل 

کوئی بھی شخص میری اس تحریر کو پڑھ کر لعن و طعن اور انگشت نمائی نہ کریں اس لیے کہ میں نے جن چیزوں کو ناجائز اور لغو اور خرافات کہا وہ ہمارے اسلاف اور علماء کرام کی کتب و فتاوی سے ثابت شدہ ہے، میں صرف ان کو تحریر کرکے ناظرین و قارئین کی نظر کر رہا ہوں اور اصل کتب کے حوالے بھی تحریر کررہا ہوں، اگر کوئی شک شبہ ہو یا زیادہ تفصیل درکار ہو تو اصل کتب کی طرف رجوع کریں اور گمراہیت سے باز آئیں میں صرف سچائی کا انکشاف کر رہا۔

تعزیہ اور دیگر رسوم فاسدہ کا باطل ہونا سرکار اعلی حضرت کی کتب سے

میرے آقا مولی سیدی اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب تعزیہ داری اور اس کے متعلقہ رسم و رواج کے سخت خلاف تھے اس پر آپ نے دو مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں (1) رسالہ تعزیہ داری (2) اعالی الافادہ فی تعزیة الہند و بیان الشہادۃ

تعزیہ بنانا اور تعزیہ پر منت ماننا کیسا ؟

تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے اور تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔

تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا ؟

تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)۔

تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا ؟

تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔

محرم الحرام میں ناجائز رسومات؟

محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، )۔

مرثیہ اور نوحہ سننا کیسا ؟

مرثیہ اور نوحہ سننا حرام ہے اور ایسی مجلسوں میں بھی جانا ناجائز(فتویٰ رضویہ جدید، 756/23،)۔

عاشورا کا میلہ

عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی ہے(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501،)۔

صدرالشریعہ مولانا امجد علی رضوی خلیفہ اعلی حضرت مصنف بہار شریعت اپنی کتاب بہار شریعت میں لکھتے ہیں

تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلے میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے ہیں اور ان کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ پاک کی شبیہ کہتے ہیں اور دھول تاشے اور قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑا ہوتے ہیں

تعزیہ سے منتیں مانی جاتی ہیں اور پھول ، ناریل چڑھائے جاتے ہیں اور وہاں شربت مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں یہ تصور کرکے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ میں فاتحہ دلارہے ہیں اور پھر دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں۔یہ سب کے سب خرافات ہیں اور سب کے سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں(بہار شریعت دعوت اسلامی:ج3،  ح 16، ص 646)۔

 

مفتی جلال الدین امجدی اپنی کتاب خطبات محرم میں ماہ محرم کے مروجہ تعزیہ کو ناجائز و حرام کہتے (خطبات محرم: ص464۔ ص466  ایسے ہی 10 صفحات میں تعزیہ کے ناجائز ہونے کے بارے میں اپ نے لکھا)۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو امام احمد رضا محدث بریلوی کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں لیکن ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری حرام ہونے کے متعلق ان کا فتوی نہیں مانتے کچھ لوگ مزامیر کے ساتھ قوالی حرام ہونے کے بارے میں ان کی تحقیق تسلیم نہیں کرتے اور بعض وہ ہیں جو بات بات پر اعلیٰ حضرت کا نام لیتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو انکے فتویٰ کا انکار کردیتے ہیں

از قلم :محمد دانش رضا منظری پیلی  بھیت یوپی 

استاذ: جامعہ احسن البرکات للولی فتح پور یوپی

رابطہ نمبر:9410610814

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن