Saturday, October 19, 2024
Homeمخزن معلوماتتم جیسا چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا ہے

تم جیسا چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا ہے

یہ بات سال ٢٠١٤ کی ہے جب وطن عزیز کی باگ ڈور بی جے پی کے گندے ہاتھوں میں چلی گئی، اور اقتدار پر بی جے پی حکومت قابض ہو گئ، وطن عزیز میں اقتدار کی حصولیابی کوئی آسان بات نہیں تھی، اس لیے حصول اقتدار کی ہوس کی خاطر  بی جے پی اور اس کی پوری ٹیم نے پورے ملک میں مذہب کو ڈھال بنا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرلیا۔  جیسا تم چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا  ہے

جیسا تم چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا  ہے

 اور عام بھارتی ان کی جعلسازیوں میں نہایت آرام سے آگئے، جس وقت بی جے پی لیڈران ملک کے مسلمانوں اور دلتوں کو بھدی بھدی گالیاں دیتے اور سر عام ان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے،  اس وقت بجائے اس کے کہ ان کو روکا جائے، تالیوں اور پھول مالوں سے ان کا استقبال کیا جاتا تھا، اور یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ جو اس طرح سے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات دے گا اس کی روک تھام کے بجائے اسکی پیٹ تھپ تھپائ جائے گی۔

اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ

 اور پھر نفرت کیسے نہ پھیلتی جب نوجوان طبقے کا برین واش مذہب کے نام پر کیا گیا، اور ایک خاص مذہب کے ماننےوالوں کےخلاف ان کے دلوں میں نفرت بھردی گئی،  پھر ملک کو نفرت کی آگ میں جلنا یقینی تھا، وقت گزرا ،بی جے پی اپنے کھلے مقصد “مسلم دشمنی “کے ساتھ جھوٹ اور مکاری سے اقتدار پر قابض ہوگئ، اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو کھلے عام قتل کیا جانے لگا۔

 اگر  ٢٠١٤سے مقتولین کا حساب لگانا چاہیں گے تو حساب لگا سکتے ہیں، وہ اس لیے نہیں کہ مقتولین کی تعداد کوئی کم ہے بلکہ ان کو کھلے عام کیمرے کے سامنے قتل کیا گیا اور ان کے قتال پر خوشیاں منائی گئیں۔

ایک طرف ہمارے مقتولین مظلومین کے روتے بلکتے اہل خانہ تھے، تو دوسری طرف قاتلوں ظالموں کو پھول مالائیں پیش کرنے والے شیطان صفت  انسان تھے، نفرت کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور وقت گزرتا گیا ، کہیں داڑھی تو کہیں ٹوپی کے نام پر مسلمانوں کا کھلے عام قتل ہوتا رہا اور جب کوئی پہچان ظاہری نہ ملی تو پھر شرمگاہ کی شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔

 افسوس صد افسوس اس پر کہ کسی کو اس پر  لگام کسنے کی جرات نہ ہوسکی، اور پھر جرات ہوتی بھی کیسے جو حکومت اقتدار میں آئی ہی اس لیے ہو، وہ بھلا اس کے خلاف کیسے کام کرتی، اس بے حس حکومت کو نہ اخلاق کے بے سہارہ اہل خانہ نظر آئے، اور نہ جنید کے تڑپتے والدین و بہن بھائی، نظر آئے، اس حکومت کو نہ افرازل کی بلکتی بیٹی نظر آئ اور نہ درد  و الم سے کراہتی اس کی بیوی نظر آئ۔۔

 موجودہ فرعونی حکومت کو نہ تبریز انصاری کی جواں سال دلہن کی سسکیاں سنائی دیں اور نہ بے گناہ آصفہ کی چیخیں سنائی دیں، درندے اسے نوچتے رہے وہ چیختی چلاتی رہی،  موجودہ فرعونیوں کو اس کے چیخنے چلانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

Amazon       Flipkaart    Bigbasket

اگر بات یہیں تک ہوتی تو برداشت کرلیتے لیکن جب ان لوگوں نے اپنی حد پار کرتے ہوئے ملک کو مسلمانوں سے صاف کرنے کی نیت سے این آر سی  سی اے اے اور این پی آر جیسے قانون مخالف کالے  قوانین نافذ کیے تو اس کے خلاف صرف مسلمان ہی نہیں بلکے دلت سکھ عیسائی سب مسلمانوں کی قیادت قبول کرتے ہوئے میدان مخالفت میں نکل آئ۔

 اور حکومت وقت کو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتا دیا کہ یہ ملک سب کا ہے اسے کسی ایک قوم کے حوالے نہیں کیا جاسکتا، ہمارے ترنگے میں جتنے بھی رنگ ہیں ہر رنگ کی ترنگے میں ضرورت ہے ترنگے کو صرف ایک ہی رنگ سے نہیں رنگا جا سکتا۔

حدیث افطار اوور  امام احمد رضا قدس سرہ

اگر یہاں کسی مسلم کی ٹوپی کی بے قدری کی جائے گی، تو سکھ اپنی پگڑی کی پرواہ کیے بغیر اس مسلم کےساتھ کھڑا ہو گا؛ اسی طرح کسی مندر کی توہین کی جائے گی تو برادران وطن سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پورا ملک اس کی حفاظت کے لیے کھڑا ہو جائے گا۔

 لیکن افسوس اس بھائی چارے کے بیچ کچھ ایسے شرپسند عناصر موجود رہے جنہوں نے کبھی بھی اس ایکتا اور بھائی چارے کو پیار کی نگاہ سے نہیں دیکھا، بلکہ وہ ہمیشہ اسے گدھ کی نگاہ سے دیکھتے رہے، اور موقع ملتے ہی نوچنے کے لیے جھپٹ پڑے۔

 اس کی تازہ مثال حالیہ دنوں میں دہلی فسادات سے آپ سمجھ سکتے ہیں، جس دن  کالے قوانین کو نافذ کرنے کی بات کہی گئی اسی دن سے بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ اس کی مخالفت کرنے لگا، لیکن جب حکومت نے ان کی مخالفت کا کوئی نوٹس نہیں لیا، تب برادران وطن نے اس کو ایک تحریک کی شکل دےدی، اور جب کسی بھی کام کی حمایت یا مخالفت میں کوئی تحریک چھیڑ دی جائے تو پھر اس کی کامیابیوں کی راہ میں بڑے سے بڑا پہاڑ بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

جیسے ہی اس مخالفت کو تحریک کی شکل دی گئی اور اس کے لیے جامعہ ملیہ، جے این یو، اور اے ایم یو ؛ جیسے ملک کے تعلیمی اداروں کے نوجوانوں نے اپنا خون پیش کیا، تو پورے ملک میں ایک انقلاب برپا ہوگیا، اور خواب غفلت میں پڑے وہ لوگ کہ جن کے خون سرد پڑگئے تھے اچانک ان میں جوش وحرارت کا تلاطم برپا ہوگیا، اور اس کے عوض اب کالے قوانین کی مخالفت کی وجہ سے تقریبا ٢٥ بھارتیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیے ۔

 اب بھلا ملک کی سلامتی کے لیے مرد آگے آئیں اور عورتیں پیچھے رہ جائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے اس لیے بھارت کی بیٹیوں نے اپنے ملک کی سلامتی کے خاطر شاہین باغ کی بنیاد ڈال دی، سب سے پہلے شاہین باغ دہلی میں بنا اور پھر اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں شاہین باغ بننے لگے، جب تک مرد میدان میں تھے حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی تھی، لیکن جب عورتیں میدان میں آئیں تب حکومت کے ماتھے سے  پسینہ بہت نکلا اور وہ لوگ جو اپنی اناپرستی میں مشہور ہیں محبت و بھائی چارگی کی باتیں کرنے لگے ایک طرف یہ دکھاوے کی محبت تھی تو دوسری طرف ان کا حقیقی مقصد مسلمانوں کو غیر بھارتی ثابت کرکے ان کی املاک و جائداد پر قبضہ جمانا،  یہاں پر ان یا مقصد ان کی محبت پر غالب آگیا اور وہ پھر اکڑ کر اپنی بات پر قائم ہوگئے۔

جس دن سے اس فیصلے کی مخالفت میں لوگ نکلے تھے اسی دن سے وہ تمام لوگ حکومت اور اس کے اندھ بھکتوں آتنک وادیوں کی آنکھ کا کانٹا بن گئے اور گاہے بگاہے وہ اپنی مسلم دشمنی کا ثبوت دینے لگے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ چند دن مخالفت کریں گے اور تھک تھکا کر اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں گے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آئی اور اندھ بھکتوں کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اب ہماری نفرت کا بویا ہوا بیج برباد ہو جائے گا اور ہمارا مقصد ہمارے ہاتھ سے دور چلا جائے گا۔ 

اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ

 اس کے لیے وہ شروع سے ہی ایسی کھٹیا و گھناونی حرکات کر رہے تھے جو کسی بھی طرح سے ایک جمہوری ملک میں نہیں ہونا چاہیے تھیں، اس کے باوجود انہوں نے وہ سب کچھ کیا۔بے شرمی کی حد تو اس وقت پار کردی گئی جب دہلی الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کے لیڈران مسلمانوں کو گولی تک مارنے کے فرامین جاری کردیے، جس پر دہلی پولس خاموش تماشائی بنی رہی ۔

 جب بی جے پی اپنے تمام داوں پیچ استعمال کرچکی اور ہر جگہ ناکام ہوئی تو پھر بی جے پی نے اپنا سب سے خاص و اہم اور کارگر ایجینڈا” مذہبی فسادات ” کی آگ بھڑکا کر دہلی کے امن امان کو جلا کر خاکستر کردیا، صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے بھارتی اب ہندو مسلم ہوگئے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور جب نفرت اتنی بڑھ جائے کہ وہ ظلم پر اکسانے لگے تو پھر لوگ ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں اور ظلم و ستم کی اس چکی میں ہمیشہ کمزور پس جاتے ہیں۔

 لہذا دہلی میں بھی ایسا ہی ہوا اور یہاں ایک طرفہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور دکھاوے کے لیے دو تین برادران وطن کو بھی بلی پر چڑھا دیا گیا، ایک طرف جے شری رام کے نعرے لگانے والے آتنکوادی مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھار ہے تھے تووہیں دوسری طرف سب کی حفاظت کا دم بھرنے والی پولس بھی مسلمانوں کے خون سے خود کے دامن کو رنگین  کر رہی تھی۔

 اگر آپ دہلی پولیس کا گھٹیا اور گندہ چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں(کیوں کہ پرنٹ میڈیا تو اس وقت حکومت کی چاٹوکارتا کر رہی ہے ) کہ کس طرح آتنکوادیوں کے ساتھ مل کر پولیس نہتے اور بے قصور مسلمانوں پر ظلم کی ایک انمٹ داستان رقم کر رہی تھی ۔

اگر آپ دیکھیں گے تو کہیں پولیس پتھر پھینکتے ہوئے نظر آئے گی، تو کہیں گولی چلاتی ہوئی نظر آئے گی، کہیں آپ پولیس کو گندی گندی گالیاں دے کر راشٹریہ گان پڑھواتے ہوئے دیکھیں گے مختصر یہ کہ دہلی پولس نے یہ ثابت کردیا کہ  ان کے جسم پر وردی تو خاکی ہے لیکن پینٹ کے نیچے چڈی آر ایس ایس والی ہے یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ میرے پاس ثبوت موجود ہیں۔

کہ کس طرح دہلی پولس کےساتھ مل کر وہاں کے نہتے بے قصور مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور ان کے مکان و دوکان کو جلا کر خاکستر کردیا گیا، کئی ثبوت ایسے بھی ملے کہ جس میں باقاعدہ لائیو ویڈیو کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ پولیس ہمارے ساتھ ہے اور ہم پرشاسن کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل عام کر رہے ہیں ان کی دوکان و مکان جلا کر خاکستر کر رہے ہیں۔

 ظلم کی یہ داستاں یہیں ختم نہیں ہوئی بلکے یہ اس وقت اور بھی دردناک ہو گئی کہ جس وقت کچھ ہندو دہشت گردوں نے ایک قدیم مزار کو بھی آگ کے حوالے کردیا اور اس کے ساتھ ہی کئی مساجد کا تقدس بھی پامال کیا گیا، بے شرمی و بدتمیزی کی حد تو اس وقت ہو گئ کہ جب آشوک نگر کی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہندو دہشت گردوں نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر کو توڑ کر پھینک دیا اور مسجد کے مینار پر لگے جھنڈے کو پھاڑ کر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگا دیا۔

 کئی جگہ سے اس طرح کی شہادتیں موصول ہوئیں کہ بھگوا دہشت گرد مسلمانوں گھروں میں گھس کر ظلم و زیادتی کی ایک اور نئی داستان رقم کر رہے ہیں اور خود میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا کہ کچھ غنڈے جے شری رام کا نعرہ لگا کر کسی مسلم کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر میں گھس رہے ہیں، اس کے علاوہ بھی ظلم کی گھٹیا سے گھٹیا تاریخ رقم کی گئی اگر دہلی فسادات میں جان گنوانے والوں کے بارے میں بات کی جائے تو کئ خبررساں ادروں کے مطابق اب تک 200/ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور دو چار برادران وطن کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اور اگر اکثریت مسلمانوں کی نہیں بھی ہوتی سب کے سب غیر مسلم برادران وطن ہوتے تب بھی دہلی میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہ سراسر جمہوریت و انسانیت کا خون ہے اور اسی خون کی رنگت دیکھنے کی چاہت بی جے پی و آر ایس ایس کے دلوں میں دہائیوں سے موجود ہے جو اب پوری ہوئی ہے، اس وقت بی جے پی مکمل طریقے سے آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی پر کام کر رہی ہے، اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی اس کی چاہت بس اور بس یہی ہے کہ ملک میں ہمیشہ قتل و غارت گری ہوتی رہے، بے گناہ قتل ہوتے رہیں۔

 اور اس قتال و جدال کو بنیاد بنا کر ہم اندھ بھکتوں کو بےوقوف بناتے رہیں، بھارت میں بسنے والا ہر انصاف پسند آج یہ بات کہنے پر مجبور ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہوا وہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس کی چاہت کی بنیاد پر ہوا اس لیے یہ بات کہنے میں بحیثیت بھارتی میں حق بجانب ہوں کہ بھارت میں “جیسا تم چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا ہے”۔

  لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ اندھیرا زیادہ دیر پا نہیں ہوتا صبح کی چمک دیکھتے ہی وہ اپنا منہ چھپانے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے لہذا یہ اندھیرا بھی زیادہ دیر تک نہ رہے گا اور بہت جلد ایک خوبصورت صبح نمودار ہو گی ان شاءاللہ عزوجل۔

اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مولی وطن عزیز کو سلامت رکھے آمین۔

 تحریر          ایم ایم رہبر

قصبہ چمروہ ضلع رامپور یوپی۔

                                    رابطہ  نمبر 8126914747              9149233885       

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن