ازقلم:محمد آفتاب عالم مصباحی،سیتامڑھی موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا کردار
موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا کردار
انسانی ہمدردی،آپسی بھاٸی چارگی،امانت داری،دیانت داری،الفت ومحبت،اخلاق وکردار،شیریں کلامی اورحق وصداقت یہ وہ اوصاف وخصاٸص ہیں،جس کاہرطبقہ،ہرفرداورہرانسان گرویدہ ہے۔یہ وہ آلہ کار ہیں جس کےذریعہ سےہرشخص کادل موہ لیاجاتاہے،حتی کےوہ گھڑی بھی آتی ہے کہ ایک جانی مالی دشمن دلی دوست بن جاتا ہے۔
ہماری تاریخ اس بات پر شاہد وعادل ہےکہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہوٸی تو وہ اپنے اندر انہیں خوبی اور اوصاف کو سماکرلاےتھے،جن کی بدولت یہاں کے باشندوں کادل جیت کراپنی حکمرانی کا جھنڈاگاڑدیا۔مسلمانوں نے اپنے اخلاق کی تلوار سے لوگوں کو اس قدر متاثر کیاکہ جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گٸے۔
ایک طویل مدت تک یہاں حکمرانی کرکےہرفردو بشرکوامن وانصاف کے ساتھ زندگی گزر بسر کرنے کاحق دیا۔لیکن ہماری کم نصیبی اور وقت کی ستم ظریفی نے ہمارے ہاتھ سے حکمرانی چھین کر اغیار کے ہاتھوں میں ڈال دیا۔پھر چند عرصہ تک تن کے گورے من کے کالےاس وطن پر اپنا سکہ جماۓ رکھا،جب ان کی بربریت اورظلم وستم کی انتہا ہوگی تو پھر سب ایک جوٹ ہوکر اس ملک کو آزاد کرایا۔وہ سفیدرنگ میں چھپیں سیاہ بھیڑ تو چلے گٸے مگر اپنے چیلوں اورخادموں کویہاں چھوڑ گٸے،جواب اپنے آقاٶں کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں۔
پھر سے مذہبی ملی منافرت پھیلانے میں اپنی توانائی صرف کر رہےہیں۔ہرگلی،ہرکونچاہربازارمیں اختلاف وانتشارکی فضا قاٸم کررہےہیں،یہاں کی گنگاجمنی تہذیب کوپارہ پارہ کررہےہیں۔
چناں چہ آۓ دن کوٸی نہ کوٸی نیا مسٸلہ نیا شوشہ چھوڑاجارہاہے۔کبھی دہشت گردی کی بدنامی توکبھی لوجہادکانعرہ،کبھی تبدیلی مذہب کاقانون توکبھی گئو رکشا کےنام پرغنڈہ گردی اورکبھی فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے سیاسی فاٸدہ اٹھانےکی بےلاگ کوشش۔یہ وہ چند سانحہ ہیں جو ہم پر بےقصور مسلط کردیےگیے ہیں۔اب ایسے مجدھار اور صورت حال میں ہمارا کیا رویہ اور کیا کردارہے اور ان سے نپٹنے کے لیے کیا لاٸحہ عمل ہے ذرا ان کا بھی محاسبہ کرلیں۔
حضرت مولانا اشرف رضا قادری کا یہ خوب صورت مضمون ضرور پڑھیں اصحاب لوح وقلم کی ناقدری
جب ہم اپنے کردار کے آٸینہ میں جھانک کر دیکھتے ہیں تویہ بات آشکارا ہوتی ہےکہآج ہماری بدحالی کی اصل وجہ ہمارے اندر بداعمالی کابہران ہے۔اسلامی نظام حیات اورتہذیب وثقافت کو پس پشت ڈال کر ترقی کاسراغ دربدر ڈھونڈ رہےہیں۔انسان کےبناۓہوےخود ساختہ اصولوں کو اپنانے میں نجات کی راہ گردان رہے ہیں۔آج اغیارکی پیروی اور ان کی نقالی ہماری جبلت بنتی جارہی ہے۔
ہر پریشان انسان دامن اسلام میں اپنا قلبی وذہنی سکون محسوس کررہا ہے،اورپیداٸشی مسلمان اسلام سے دور دراز بھاگا جارہا ہے،اپنے دین کے احکام وپیغامات کو نیست ونابودکرتاجارہاہے۔دنیاکےسارےلوگ قرآن وحدیث کے سہارےاپنی کامیابی کا راز تلاش کرنے اوراپنی پریشانی کو دور کرنے میں انتھک کوشش کررہےہیں،جبکہ ہم اس دارفانی میں اپنی محدود زندگی گزارنے کے قابل بھی نہ رہ سکے۔آج ہم یورپ کے احکام وارشادات کو گلے لگا کر اپناروشن مستقبل تلاش رہےہیں
حالا ں کہ اہل یورپ خود اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکرحلقہ بگوش اسلام ہورہےہیں۔شرپسندعناصر اپنے شاگردوں کو مسلمانوں کا لبادہ پہناکرمسلمانوں کی صفوں میں دڑار پیدا کرنے کی گھناٶنی سازش رچ رہےہیں۔آج وہ لوگ اسلام کی حقیقی اورامن بخش تعلیم دینےکاراگ الاپ رہے ہیں
مگر ہم نہایت خاموشی کےساتھ ان تمام حادثادت وواقعات کواپنےماتھےکی نگاہ سے دیکھ رہےہیں۔ہمارا کردار اتنا گندہ ہو چکا ہے کہ ہر شخص ہم سے متنفر ہوکردورہوتا چلاجارہا ہے۔ہونا تو یہ چاہٸے تھا کہ ایک مسلمان کاکرداراس قدر صاف وشفاف ہوکہ اس کو جاننےوالادوسرا آدمی اس کےخلاف کسی پروپیگنڈے کا اثر آسانی سے قبول نہ کرے،ورنہ ہمارے کردار کا جھول اس پروپیگنڈے کے لیےراستہ ہموار کرتا ہے۔
ہم اپنےکردارسےبالکل ہٹےہوۓہیں اورعدالت،شجاعت،امانت اورصداقت کاوہ سبق بھول چکے ہیں جس کی بنیاد پر دنیاکی امامت کاکام لیاجاتاہے۔اس ہمہ ہمی کے دور میں ہم اپنی اخلاقی ذمہ داری کو بھول چکے ہیں اوردنیا کی رنگینیوں میں گم ہوگٸے ہیں ہمارے اوپر کیا لازم وضروری ہے اس بات کی فکر دلوں ودماغ سے نکل چکی ہے۔ہم نے دنیا والوں کےسامنے سیرت کاہمہ گیرپیغام پیش نہیں کیا،اور نہ ہی اسلامی اخلاق وتعلیمات سے روشناس کرانےکی سعی وہمت کی۔
یہی وجہ ہےکہ مسلمانوں کے محلے میں قیام ہونے والے غیرقوم کی ایک خاصی تعداد ہمارےاعمال وکردار سےواقف نہ ہوسکے،اسلامی افکار ونظریات کاحامل ہونے کے بجائے وہ خود شکوک وشبہات کی منزل تٸے کرنےلگے۔لہزاان حالات میں ہماری ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے۔
بس ضرورت ہے ہمیں اپنے اعمال وکردار کے اصلاح کی،اپنےطرزعمل وطریق کارمیں تبدیلی پیداکرنےکی۔بہت سنجیدگی کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک کرناہوگاکہ اس صورت میں ہمارا بنیادی کردار،آپسی میل جول اور ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح پیش آۓ۔
ہم بحیثیت مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داریاں ادا کریں اوراس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے کسی بھی فعل سے اسلام اورمسلمانوں کا نام داغدارکرنےکاکوٸی موقع دشمن عناصر کے ہاتھ نہ لگے۔
ازقلم : محمد آفتاب عالم مصباحی
سیتامڑھی