تحریر محمد ہاشم اعظمی مصباحی فیس بک پر ہماری نئی نسل کا کردار
فیس بک پر ہماری نئی نسل کا کردار
مکرمی ! سوشل میڈیا کے اس زمانے میں سوشل سائٹس کے صارفین کی تعداد میں روز افزوں ہو رہا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی سائٹ مثلاً واٹس ایپ، فیس بک،انسٹاگرام، ٹیوٹر، وغیرہ جیسی ان گنت سائٹس سے جڑا ہوا ہے سر دست ہمیں فیس بک کے حوالے سے کچھ باتیں کرنی ہے فیس بک
(Facebook)
مینلو پارک، کیلیفورنیا میں واقع ایک آن لائن امریکی ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطہ کی کمپنی ہے۔
اس کی ویب سائٹ کو 4 فروری 2004ء کو مارک زکربرگ نے اپنے ہارورڈ يونيورسٹي کے ساتھیوں ادوارڈو سورین،اینڈریو میکولم،دوسٹن ماسکوفٹ اور کرس ہیوزس کے ساتھ مل کر لانچ کیا تھا فیس بک
face book
در اصل ایک ڈائریکئری کا نام ہے جو امریکی یونیورسٹی کے طالب علموں کو دی جاتی ہے
فیس بک کے شیئر کی ابتدائی پیش کش
( IPO-Initial Public Offering)
سنہ2012ء میں شروع ہوئی اور اس کی مالیت 104 ملین امریکی ڈالر تک بتائی گئی ہے اس وقت تک کی نو فہرست یافتہ کمپنیوں میں سب سےزیادہ مالیت والی کمپنی یہی تھی۔ تین ماہ بعد اس نے اپنا اسٹاک عوام کو بیچنا شروع کیا اورسیکڑو ملین ڈالر کی کمپنی بن گئی. فیس بک کی زیادہ تر آمدنی اشتہارات ہیں جو اس کے صفحات پر اپنی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
فیس بک تک بہت سارے انٹرنیٹ شدہ آلات سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ،ٹیبلیٹ اور سمارٹ فون وغیرہ۔ کھاتہ بنانے کے بعد صارف اپنی مرضی کے مطابق اپنا پروفائل بناسکتے ہیں جس میں نام، پیشہ اور اسکول وغیرہ کی تفصیلات شامل ہیں۔
ایک صارف دوسرے صارف سے بطور دوست تعلق قائم کر سکتا ہے۔ تبادلہ خیال کر سکتا ہے، اپنا مزاج اپڈیٹ کرسکتا ہے، ویڈیو اور ربط مشترک کر سکتا ہے،دوسرے صارفیں کے سرگرمیوں کی اطلاعات موصول کر سکتا ہے
ان سب کے علاوہ صارف اپنی پسند اور دلچسپی کی بنیاد پر گروپ میں شامل ہو سکتا ہے جو افراد، اسکول، کام کی جگہ، دلچسپیاں اور دوسرے موضوعات پر منقسم ہیں۔ صارف اپنے دوستوں کی فہرست کی بھی درجہ بندی کر سکتاہے جیسے ساتھ کام کرنے والے دوست، اسکول کے دوست، آبائی وطن کے دوست اور قریبی دوست۔ صارف کسی ناخوشگوار شخص کو بلاک کرنےکےلئے رپورٹ بھی کر سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی مراسلہ کے متعلق اپنی رائے
(comments)
دے سکتا ہے اور عریانیت، تشدد، فرضی وغیرہ ہونے کی بنا پر بلاک کروا سکتا ہے۔جب سے اسمارٹ فون عام ہوا ہے تب سے فیس بُک صارفین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے
جنوری 2018ء کے سروے کے مطابق فیس بک پرماہانہ 2٫2 بلین سے زیادہ فعال صارف ہیں اس کی شہرت نے صارف کی رازداری اور اس پر نفسیاتی اثر کی وجہ سے ہونے والے اہم جانچ پڑتال کی بنا پر بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج کی توجہ کھینچی ہے فیس بک استعمال کرتے ہوئے ہمیں بھی کئی سال ہو گئے فیس بک کے جہاں فوائد ہیں وہیں اس سے زیادہ نقصانات ہیں بہت سی مرتبہ اچھی تحریریں، نکات آفریں اقوال، معلوماتی مضامین، پڑھنے کو مل جاتے ہیں
بعض دفعہ ذہن ودماغ کو اپیل کرتے ہوئے کچھ ایسے سبق آموز واقعات نظر سے گزرتے ہیں کہ پڑھ کر رعشہ طاری ہو جاتا ہے لیکن فیس بُک پوسٹس کی روشنی میں ایک بہت تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے جسے میں بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ آپ سے شئر کرنا چاہتا ہوں کہ اس سائٹ پر خصوصاً ہماری قوم کے نوجوان نہایت فراغت اور لا ابالی پن کا شکار رہتے ہیں
نوجوان طبقہ جو ہمارے معاشرے کے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ عجیب فرصت اور سطحی ذہنیت کا مارا ہوا ہے میرے اس دعوے کی تصدیق کے لے آئیے چند پوسٹس کو بطور مثالیں دیکھیں اس لئے کہ “دعویٰ بلا دلیل قبول خرد نہیں” آپکی بیٹری کے مطابق میری شادی کے کتنے چانسز ہیں؟۔
اسوقت کون کون جاگ رہا ہے اور جاگنے کی وجہ کیا ہے؟..اسوقت آپکو کونسی بات پریشان کر رہی ہے دل کا بوجھ ہلکا کر لیں..کبھی دعا میں کسی کو مانگا ہے؟..بابا جی نے کہا میری والی نہیں ملی تو تیرے والی کا کیا بتاؤں؟..کسی کرونا وائرس کو مینشن کریں؟..پلیز لمبی لمبی مت چھوڑو، بچپن میں کتنے پیسے لیکر اسکول جایا کرتے تھے؟..وہ یہ پوچھنا تھا آپ لوگ گروپ میں کیسے آتے ہیں میرا تو اپنا ہیلی کاپٹر ہے..اس وقت آپ کے سر پہ جو ڈوپٹہ ہے اسکا کلر کونسا ہے؟
آدھی رات کو بھوک کس کس کو لگ جاتی ہے؟..مونچھوں والے لڑکے ٹھرکی ہوتے ہیں یا کلین شیو والے؟..جاگنے کی وجہ نہ بتاؤ بس اتنا بتاؤ سوۓ کیوں نہیں..پوری ایمانداری سے اپنی گیلری سے فوٹو نمبر 1 کمنٹ کریں..یہ لایعنی پوسٹس کی چند مثالیں ہیں جسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے
اور ہمارے نوجوان کہاں پڑے ہوئے ہیں نوجوانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں. والدین، خاندان، معاشرے کے ساتھ خلوص کا کیا لیول ہے؟اور فیس بک پہ کی جانے والی یہ اور اسی طرح کی بےشمار بےمقصد پوسٹیں کیا ظاہر کرتی ہیں ؟
دہلی کےجلتے ہوے دن و رات اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں
ہمارا نوجوان طبقہ کن بے کار کے کاموں میں پڑا ہوا ہے حالانکہ کھیل کا میدان ہو یا آئی ٹی کا، معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی مسائل، کسی بھی شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں ۔ وہ کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہوجائے کہ ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے ان کی اہمیت کیا ہےاور وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دیں، تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں۔
سابق امریکی صد ر فرینکلن ر وز ویلٹ نے کہا تھا کہ ’’ہم نوجوانوں کے لیے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے، مگر ہم مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعمیر کرسکتے ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اگر نوجوانوں میں یہ شعور اجاگر ہوجائے کہ ملک کا مستقبل ان کے ہی ہاتھوں میں ہے ، ان ہی کےکاندھوں پر قوم کی ترقی کا دار ومدار ہے، وہ ہر برائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تو صالح تبدیلی آتے دیر نہیں لگے گی۔
نوجوانو! خدارا ہوش کے ناخن لو سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرو اس لئے کہ قوم وملت کے تحفظ وبقا اور ترقی وتنزلی کے آپ ہی امین ہیںاور آخر میں ایک اہم بات کہنا چاہتا ہوں جو آپ کو اپنے ذہنوں میں راسخ کر لینا چاہئے ہے کہ قوم وملت کے فروغ و استحکام کی جدجہد میں آپ ہی کے جیسے نوجوان تھے جو ہر میدان کے غازی تھے. آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی آپ ہی کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے
آپ ہی دنیا کے سامنے اپنے ملک و قوم کی شناخت ہیں اور آپ ہی کو اپنی قوم میں دوبارہ اس کی عظمت رفتہ اور حثیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے
آپ اپنے بزرگوں کی امیدیں ہیں اور اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ ہیں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس احساس کے ساتھ گزاریں وہ دن دور نہیں کہ آپکے بزرگوں کی رہنمائی اور آپکی محنت کے نتیجے میں الله تعالیٰ ہمیں دوبارہ اس مقام پے پہنچا دے گا جو ہم کھو بیٹھے ہیں
از محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی
9839171719