Sunday, September 8, 2024
Homeمخزن معلوماتانصاف قتل ہوگیا قاتل کے ساتھ ہی

انصاف قتل ہوگیا قاتل کے ساتھ ہی

انصاف قتل ہوگیا قاتل کے ساتھ ہی

انصاف قتل ہوگیا قاتل کے ساتھ ہی

جرأتِ اظہار

          اترپردیش کا شہر کانپور اور بدنام زمانہ گینگسٹر وکاس دوبے کانام تقریبا ایک ہفتے سے اس قدر سرخیوں میں ہے کہ گلوان گھاٹی میں چین کے ذریعہ بھارتی فوجیوں کی شہادت کے بعد دونوں ملکوں کے مابین جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی،اس کی خبریں بالکل غائب ہوگئیں۔مانیں تو یہ ایک فلم جیسی کہانی لگتی ہے،جس میں پہلے پولیسیہ مخبری کے ذریعہ8 پولیس والوں کو شہید کرواکرویلن کی برتری اور بہادری دیکھائی جاتی ہے اورپھر بعد میں فلم ہی کی طرح ایک ڈرامائی انداز میں ویلن کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ’فلم کی اسکرپٹ اور اسکرین‘دونوں ہی بالکل صاف ہوتی ہے

اور قاری اور مشاہد اصل معالے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔مگر’وکاس دوبے فلم‘ کی اسکرپٹ اور اسکرین دونوں ہی دھندلی بلکہ کالی نظر آرہی ہے۔ کچھ بھی ہو،یہ فلم اتنی ہٹ ہوئی کہ اس کی سنسنی خیز خبروں اوراس پر سیاسی گلیاروں سے بے لاگ تبصروں کا انسانی ذہن ودماغ پریہ اس قدر خمار چڑھارہا کہ پتہ ہی نہیں چلاکہ ہم کس طرح سے اور کیسے پھر سے اسی تین روزہ لاک ڈاون میں آگئے جس نے پہلے سے ہی غریبوں اور مزدوروں کی زندگیاں تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔خیر! وکاس دوبے نے چاہے اپنا وکاس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اس نے پردے میں چھپے اپنے آقاوں اور سرپرستوں کا خوب وکاس کیا۔

اس کو بھی پڑھیں  کیا حقیقت میں مولوی کی دوڑ مدرسہ سے مسجد تک 

          اگر وکاس دوبے فلم کی اسکرپٹ اور اسکرین دونوں کو غور سے پڑھی اور دیکھی جائے تو یہ انکاونٹر منصوبہ بند انکاونٹر نظر آتا ہے،جس کی طرف اشارہ اکثر قانونی اکسپرٹ اور سیاسی دانشوران کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں آئی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر کا ٹویٹ بہت تیزی سے وائرل کیا جارہا ہے جو انہوں نے

انکاونٹر سے پہلے ہی کیا تھا۔انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ”وکاس دوبے گرفتار ہوچکا ہے۔کل وہ یوپی پولیس کی کسٹڈی سے بھاگنے کی کوشش کرے گا تو ماراجائے گا۔اس طرح سے وکاس دوبے کا چیپٹر بند ہوجائے گا۔لیکن میری نظر میں اس معاملے کی اصل حقیقت تک پہنچ کر یوپی پولیس کی اندر کی گندگی کو ایمان داری سے دیکھتے ہوئے اس پر سخت کاروائی ہونی چاہیے“۔

انکاونٹر کے بعد اس ٹویٹ کو لوگوں نے خوب وائرل کیا اور وکاس کے عجیب وغریب فرار ہونے سے لے کر بزدلانہ خود سپردگی پھر ڈرامائی انکاونٹر تک کے واقعات پر یوپی پولیس کو سوالوں کے گھیرے میں لاکھڑا کیاکہ آخر ایک آتنک وادی کو گرفتار کرنے کے بعد ہلکے میں کیوں لیا گیا؟

 کار پلٹنے کے بعد بھی اسے اتنی مہلت کیسے مل گئی کہ وہ پولیس والوں کے ہی ریوالور سے انہیں پر فائرنگ کرنے لگا؟دوسری بات یہ ہے کہ میڈیا والوں کے مطابق سفاری گاڑی میں سوار وکاس دوبے کو کیسے دوسری گاڑی میں سوارکیا گیا اور یہ کیوں کرنا پڑا،اور میڈیا والوں کو پہلے ہی روک لیا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب یوپی پولیس کو دینا چاہیے ورنہ تو یوپی پولیس کی بچی کھچی ساخ بھی نیلام ہوجائے گی

غور کرنے والی بات ہے کہ تین جولائی کو سینیئر آفیسر سمیت آٹھ پولیس والوں کو شہید کرکے جس جاں بازی کے ساتھ یہ فرار ہوا،اور ہائی الرٹ کے باوجود اس کا تین سرحدوں کو آسانی کے ساتھ پار کر کے اجین،مدھیہ پردیش نکل جانا یہ محض اتفاق نہیں لگتابلکہ تینوں ریاستوں کی کمزوری یا سازباز کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

جس کا جواب تینوں ریاستوں میں براجمان برسر اقتدار پارٹیوں کو دینا لازمی بن جاتا ہے۔تعجب کی بات ہے کہ اتنی لمبی اڑان بھر نے کے بعد اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ وکاس دوبے کو بہادری کا کھول اتار کر بزدلی کا جامہ پہننا پڑا،اور مہاکالیشور مندر سے نکلتے وقت چیخ چیخ کر یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ” میں ہوں وکاس دوبے کان پور والا”۔ایسی غیر متوقع بزدلانہ حالت پر تو سوال لازمی ہے کہ اس کے اور اس کے گرگوں کے ذریعہ آٹھ پولیس والوں کے شہید کرنے سے پہلے ہی اس نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا؟کیا اس کو پہلے پولیس اور قانون کی طاقت کا اندازہ نہیں تھایا تھا،مگر اس کو اس وقت قانونی یا سیاسی حمایت حاصل تھی؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ایک کے ذہن ودماغ کو جھجھوڑ رہے ہیں۔ان سب کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔

          دوسری طرف یہ بات بھی خوب تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ پولیس اس بات کو اچھی طرح سے جانتی تھی کہ وکاس دوبے گرفتار ہونے کے بعد کوٹ کچہری کا چکر کاٹ کر چھوٹ جائے گا پھر حسب سابق جرائم کی دنیا میں داخل ہوجائے گا اور تمام معاملے ٹھنڈے بستے میں دب کر رہ جائیں گے۔

اس لیے پولیس نے یہ راستہ اختیار کیا۔یوپی حکومت بھی پولیس کی اس کارکردگی پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے اور پولیس کی تعریف کررہی ہے۔لیکن جس طریقے سے

 کانگریس لیڈران خاص کر راہل گاندھی،پرینکا گاندھی اور دگ وجے سنگھ وکاس دوبے کی موت کو ایک ڈرامائی اور پولیس اور انتظامیہ کی سازباز بتا رہے ہیں اس پر ان کی تسلی ہی کے لیے سہی اطمینان دلانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو اور بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو کنواری مایاوتی نے جن شکوک شبہات کا اظہار کیا ہے ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

          بہرحال!یہ بھی ہمارے ملک کی بد قسمتی اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہاں سیاست دان،پولیس اور مجرموں کی ملی بھگت کا کھیل بہت پرانا رہا ہے۔جب بھی کوئی قدآور اور شاطر مجرم پکڑا جاتا ہے تواس کے دیرینہ سیاسی رشتے اور تعلقات کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں۔مگر اس میں کتنی سچائی ہوتی اور کتنی جھٹائی اس سے پہلے ہی اس بات کو چھپانے کے لیے ایک نئی کہانی لکھ دی جاتی ہے،جس کو زرخرید میڈیا اپنے اسٹوڈیو سے دہاڑیں مار کر سناتا ہے۔اتنا ہی نہیں،مجرم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس سے لے کر انتظامیہ تک ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا دیتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرکے سارے معاملے کوہمیشہ کے لیے ٹھنڈے بستے میں ڈال کر ختم کردیتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی کوئی نئی اسکرپٹ لکھ کر رازہائے بستہ کو قاتل کے ساتھ ہی قتل کردیا جاتا ہے یا ایک الگ اور صاف اسکرپٹ لکھ کر وکاس دوبے کے سرپرستوں اور حمایتیوں کے گردن تک پہنچ کر سارے گڑے مردے اکھاڑے جاتے ہیں۔

 نعیم الدین فیضی برکاتی

ریسرچ اسکالر اعزازی ایڈیٹر

ہماری آواز،رانی پور مہراج

9792642810

mohdnaeemb@gmail.com

Amazon    Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن