ہندو دھرم کے عقائد و اعمال تحریر: محمد فیضان رضا رضوی علیمی سیتامڑھی بہار
ہندو دھرم کے عقائد و اعمال
دنیا کی بےشمار مخلوقات میں ایک عظیم مخلوق انسان ہے چونکہ انسان دوسرے حیوانات کے ساتھ مشترک اور امتیازی خصوصیات کی بنا پر دو قسم کی زندگی گزارتا ہے ایک اس کی حیوانی زندگی اور دوسری انسانی، دوسرے الفاظ میں ایک مادی زندگی اور دوسری ثقافتی یا غیر مادی زندگی۔ مادی زندگی میں یہ بھی دوسرے حیوانات کی محسوسات تک محدود رہتاہے جب کہ غیرمادی اور ثقافتی زندگی میں لامحدود اور جاوداں اشیا کی معرفت، کلی قوانین اور آفاقی حقائق کا ادراک حاصل کرتاہے۔ یہ ثقافتی زندگی اس کی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی حیوان اس کا ہمسر اور شریک نہیں۔ انسان کی یہ ثقافتی اور اجتماعی زندگی اس کے ان پختہ خیالات و افکار اور نظریات جنہیں عقائد کہا جاتا ہے کی آئینہ دار ہوتی ہے
ہردین و مذہب اور اجتماعی فلسفہ میں ان کلی قوانین اور آفاقی حقائق کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے, جس میں تصورالہ، تصورکائنات، انسانیزندگی، موت اور حیات مابعد الممات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے- اسی طرح ہر مکتب و مذہب اور دین و دھرم انہی تصورات کی روشنی میں اہداف و مقاصد اور راہ و روش کا تعین کرتاہے، جس سے انسان معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے۔
ہندو مذہب میں بھی انہی بنیادی تصورات اور عقائد کی روشنی میں اجتماعی اور انفرادی زندگی کے مقاصد اور اصول وضع کئے گئے ہیں۔ چوں کہ ہندو ایک قدیم مذہب ہے اس لیے عقائد و اعمال تغیر پذیر اور ارتقائی صورت لیے ہوئے ہیں۔ قدیم ویدی دور اور بعد کے ہندووانہ عقائد و نظریات میں بہت نمایاں فرق پایا جاتاہے۔ ہندو دھرم کی اس تبدیلی اور جاذبیت کے پس پشت یہ نظریہ کار فرما رہاہے کہ حق و صداقت کسی کی اجارہ داری نہیں۔
حق کی معرفت کےاور بھی کئی ایک راستے ہیں اسی لیے ہر طرح کے متضاد عقائد کے ساتھ روادی برتی گئی، یوں عقائد اور بنیادی اعمال کے لحاظ سے ہندو مت ایک معجون مرکب ہے جس میں وحدانیت، ثانویت، ثثلیثیت اور کثرت پرستی کا وجود یکساں پایا جاتاہے مزید یہ کہ ہندو دھرم میں عقائد کا نظام نہایت پیچیدہ ہے اس لیے وہ عقائد سے زیادہ معاشرتی اور مذہبی رسومات کر زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
ہندو دھرم کے واجب و ضروری عقائد میں مخلوقپرستی، کثرتپرستی، کَرَمْ، تناسخ، حیوانپرستی، شجرپرستی، خداپرستی اور بتپرستی نمایاں حیثیت کا حامل ہے
مخلوقپرستی و کثرت پرستی
ہندو مذہب کے بنیادی اور ابتدائی عقائد وید سے ماخوذ ہیں۔ رگ وید میں بہت سے دیوتاؤں، متوفی آباؤاجداد کی ارواح اور مظاہر قدرت کی پرستش کا ذکر ہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے مخلوقپرستی اور کثرتپرستی ہندؤں کے ابتدائی عقائد و نظریات میں سے ہے جس کی بنیاد ہمہ اوست کے نظریہ کے تحت ہے یعنی یہ کہ خدا کائنات کے ہر ذرہ اور خطہ میں موجود ہے۔ اسی لیے وہ لوگ مخلوق خدا کی پوچا پاٹ کرتے ہیں- (اسلامی اور ہندو رسوم و معاشرت ص/۲۸۷)۔
کَرَمْ
کرم(عمل) یہ ہندو دھرم کا بہت مشہور عقیدہ اس عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا، بڑا، اچھا، برا انسانی روح پر اثر انداز ہوتاہے اور انسان اپنے کرم (عمل) کے لحاظ سے سزا و جزا کا مستحق ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے کرم کی بنیاد پر اس کے یہاں اچھا یا برا بچہ جنم لیتا ہے۔ (بحوالہ ویکیپیڈیا)۔
تَناسُخْ
یہ ان کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ یہ تناسخ (آوا گون) ویدی عہد میں کچھ مبہم و مخفی تھا۔ پھر بھگود گیتا میں کرشن نے متعدد جنم کی تعلیم دی اس کے لیے مواد فراہم کیا یہاں تک کہ ہندو عہد میں پوری طرح مستحکم ہوگیا اس عقیدے کے مطابق انسان کو صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے بلکہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ موت کے دیوتا کے سامنے پیش کیاجاتا ہے جو اسے جانچتا ہے اور روح کی صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے جب یہ معیاد ختم ہوجاتی ہے تو دوبارہ اسے جنم لینے کے لیے بھیج دیتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک انسان اچھے اور معقول عمل کا ذخیرہ جمع نہیں کرلیتا، لیکن اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اس انسان کی مکتی نہیں ہوتی ہے۔ مکتی کیا ہے اس دھرم میں اس کا پتہ نہیں- (بحوالہ ویکیپیڈیا)۔
حیوان پرستی
ہندو دھرم میں جانور کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ہندو روسوم میں یجن یا یگیہ یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل ہے یہ آریاؤں کی رسم تھی۔ جو ہندو عہد تک جاری رہی مختلف راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتاہے اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی جانوروں کی قربانی کو آج بھی اہمیت حاصل ہے اور اس دور میں بھی کالی کو سیکڑوں بھینسوں اور مندروں میں ہزاروں بکروں کو چڑھاتے ہیں-
شجرپرستی
ہندو دھرم میں سمبھل، پیپل اور ناریل وغیرہ کے پیڑ کی پوچا کی جاتی ہے
تصور خدا
قدیم ہندستانی ویدک دھرم بھی عقیدہ توحید کی تعلیم دیتاہے اور ایک ہی معبود کی عبادت و پوجا کرنے کا حکم بیان کرتا ہے اور خدائے واحد کی جن صفات کا ذکر اسلام نے پیش کیا ہے انہیں خصوصیات کے قریب قریب ایک ایشور کے لیے قدیم ہندو سناتن دھرم کے ماننے والوں نے بیان کیا ہے نیز تعدد الہ اور مورتی پوجا کا واضح طور پر رد کرتاہے۔
قدیم ویدی دورسے لے کر عہد جدید تک ہندو مت میں کثرتپرستی کے ساتھ ساتھ وحدانیت کا تصور بھی پایا جاتاہے بے شمار دیوتاؤں کے بتوں اور مورتیوں کی پوجاکی جاتی ہے مگر ایک ذات ایسی بھی ہے کہ جس کی نہ کوئی مورتی ہے نہ بت اور نہ ہی کوئے تصویر اس ذات کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتاہے جیسے خدا، اللہ، رب، پالنہار اور ان کی زبان میں ایشور وغیرہ اس ذات واحد کو سارے دیوی دیوتاؤں میں بلندی حاصل ہے اور اس کی پوچا کو ہی اصل پوچا مانتے ہیں-( ملخصاً اسلام اور ہندو کا تقابلی مطالعہ ص/۱۳۹)۔
بت پرستی
مختلف بلاد و امصار میں بے شمار بتوں اور مورتیوں کی پوجا پاٹ کی جاتی ہے بلکہ اب تو ہر طبقہ کے لوگ اپنے اپنے دیوتا کی شکل و صورت اپنے اپنے طور پر بناتے ہیں اور کرتے ہیں
تصور اوتار
ہندو دھرم کی مذہبی کتب کے مطابق اوتار اور ایش دوت کو ہندو دھرم میں تقریباً وہی اہمیت حاصل ہے جو اسلام میں نبی ورسول کو حاصل ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ نبی و رسول اسلامی تصور ہے اور اوتار و ایش دوت ہندو دھرم کا تصور ہے۔ یہ دونوں ہدایت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں(اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ ص/۱۴۰)۔
ہندو دھرم میں جہاں لاتعداد عقائد کفریہ ہیں وہیں اس دھرم میں سیکڑوں اعمال ہیں اس دھرم میں جو معمولات و اعمال پائے جاتے ہیں وہ بنیادی طور پر تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) جسمانی جیسے وِرت و اُپواس، صبح و شام کی پوجا، جاپ اور دھرم یدھ وغیرہ (۲) مالی جیسے دان، دکچھنا، بلی، قربانی ویگ وغیرہ (۳) جسمانی و مالی جیسے تیرتھ یاترا وغیرہ ان کے اقسام کے مطابق ذیل میں ان کے چند معروف اعمال و رسوم کا ذکر کیا جاتاہے (ملخصاً اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ ص/۱۴۰)۔
قربانی یا بلی
قربانی یا بلی کا تصوّر ہندو دھرم میں قدیم زمانہ سے پسندیدہ رہاہے۔ یہ ایک ایساعمل ہے جس سے انسان دیوتاؤں سے قریب ہوجاتاہے سب سے پہلے ویدوں نے اس کو رائج کیا اور برہمن، کلپسوتر اور میمانسہ میں اس کی وضاحت و تشریح اور تدوین ہوئی پھر مہابھارت اور پرانوں نے اس کو عام شہرت، مقبولیت عطاکی۔ قربانی کا تصوّر ہندو دھرم میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔
اس کا متبادل دوسرا کوئی عمل ہے ہی نہیں جس سے دیوتا خوش ہوجائے اور جس سے نجات و مکتی کو ممکن ہوسکے۔ اس عمل کی وجہ یہ ہے کہ جت خالق کائنات کی طاقت و قوت عمل تخلیق سے کمزور پڑجاتی ہے تو دیوتاقک قربانی کے ذریعے اس کمزوری کو دور کرتے ہیں۔ جس کی قربانی جس قدر خلوص کی ہوگی اس کا دیوتا اتنا ہی خوشی سے سرفراز ہوگا۔ گوکہ قربانی ہی وہ فعل ہے جس سے دنیا و آخرت کی برکات میسر ہوتی ہیں۔
قربانیاں مختلف اقسام و انواع کی ہیں پہلی فرض و مقررہ، دوسری فرض و غیر مقررہ اور تیسری اختیاری ان کے علاوہ خانگی اور گھریلو قربانیاں بھی ہیں جن کو گرھیا کہتےہیں اور جن کا تعلق افراد سے ہے۔ ویدوں کے زمانے میں جو قربانیاں دی جاتی تھیں وہ جانوروں، دودھ اور روٹیوں پر مشتمل ہوتی تھیں- (ملخصاً اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ ص/۱۳۱)۔
مناکحات
ہندو دھرم شاستروں کے مطابق وِواہ، شادی ایک مذہبی رسم و سنسکار ہے جس کے بعد ہندو لوگ خانگی زندگی شروع کرتے ہیں اس میں بہت سے احکام و اصول کے تکمیل کی جاتی ہے نیز بہت سے دیوتاؤں کی پوچا پاٹ کی جاتی ہے اور مختلف عہدو پیمان کرائے جاتے ہیں- (اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ ص/۲۴۱)۔
سولہ سنسکار
ہندو دھرم شاستروں کے مطابق ہندؤں کے سولہ مذہبی سنسکار ہیں۔ جب سے انسان حمل میں آتا ہے اس وقت سے اس کی آخری سانس تک یہ سنسکار کیے جاتے ہیں جن کا مختصر بیان ذیل میں ذکر کیا جاتاہے
۔۱:- استقرار حمل جب بچہ حمل میں آتاہے یا نطفہ قرار پاتاہے تو اس کے تحفظ کے لیے سولویں دن برہمن کو بلا کر یہ سنسکار کرایا جاتاہے تاکہ حمل خراب یا ساقط نہ ہوجائے۔
۔۲:- اطمینان حمل جب یہ معلوم ہوجائے کہ عورت حاملہ ہوگئی ہے اور اس کے حاملہ ہونے کا یقین ہوجائے تو دوسرے یا تیسرے ماہ میں سنسکار کراتے ہیں تاکہ بچے کو طاقت و بہادری حاصل ہو۔
۔۳:- انبساط والد حاملہ عورت کا دل خوش رہے اور حمل قائم رہے اس مقصد سے یہ سنسکار کیا جاتاہے اور استقرار حمل سے چوتھے مہینے کے شُکل یکچھ یعنی چاند کے مہینے کے پہلے پندرہ دن میں یہ سنسکار ہوتاہے۔
۔۴:- ولاد ت یہ بچے کی ولادت کا سنسکار ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ اور ماں کا دودھ منہ میں دیا جاتا ہے۔ اگر لڑکا پیدا ہو تو یگ دھوم کراکے گھی، شہد سے سونے کی سلاخ سے بچے کی زبان پر اُوْم لکھا جاتاہے۔
۔۵:- نام رکھنا
اس سنسکار میں بچے کا نام رکھا جاتا ہے پیدائش کے دوسرے سال میں داخل ہوتے ہی ولادت کے دن نام رکھنے کا یہ سنسکار ادا کیا جاتاہے۔
۔٦:- گھر سے باہر نکالنا
یہ بچے کو گھر سے باہر نکالنے کا سنسکار ہے۔ بچے کو اکثر چوتھے ماہ میں گھر سے باہر نکالتے ہیں۔ جس تاریخ کو پیدا ہوا اسی تاریخ کو یہ سنسکار کرنا چاہیے۔ اس دن یگ کیاجاتاہے اور وید منتروں کا جاپ بچے کے کان میں سنایا جاتاہے۔
۔ ۷:- اناج دینا
اس دن بچے کو پہلی بار اناج استعمال کرایا جاتاہے یہ سنسکار بچے کے جنم کے چھٹے ماہ میں کیا جاتاہے اس دن گھی سے ملا بھات، دہی، شہد سے ملا اناج ستعمال کراتے ہیں۔ پجاری منتر پڑھتا ہے اور بچے کے منہ میں ڈالتاہے۔
۔۸:- بال کٹانا
اس کو بال کاٹنے کا سنسکار کہتے ہیں۔ بچے کے جنم کے ایک سال یا تیسرے سال میں بال منڈوائے جاتے ہیں۔ اس میں منتروں کے ساتھ بال بھگوئے جاتے ہیں اور منتروں کے ساتھ ہی کاٹے جاتے ہیں اور گوشالہ، ندی یا تالاب کے کنارے دفن کردیے جاتے ہیں۔
۔۹:- کان یا ناک چھیدنا
اس میں لڑکا یا لڑکی کا ناک یا کان چھیدا جاتاہے یہ سنسکار ولادت کے تیسرے یا پانچویں سال میں کیا جاتاہے اس دن کان یا ناک چھیدکر اس میں کچھ دوا لگاتے ہیں منتر پڑھتے اور یگ کرتے ہیں
۔۱۰:- جنیو پہننا
جس دن حمل رہاہو یا جنم ہواہو اس سے برہمن کے آٹھویں یا چھتری کے ۱۱/ویں اور ویش کے ۱۲/ویں سال میں بالترتیب ١٦، ٢٢، ٢٤ کی عمر سے پہلے اُپینین سنسکار ضرور کریں یعنی نوجوان کو جنیو پہنائیں۔ جنیو اس بٹے ہوئے دھاگے کو کہتے ہیں جسے ہندو بدھی کی طرح گلے میں ڈالے رہتے ہیں۔ اس سنسکار کے دن برہمن، چھتری اور ویش کا دوسرا جنم ماناجاتاہے۔ اس سے یہ لوگ خالص ہندو بنتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ تینوں (برہمن،چھتری اور ویش) دوج کہلاتے ہیں۔ دھرم شاستروں کے مطابق برہمن کا موسم بہار، چھتری کا موسم گرما اور ویش کا موسم سرما میں یہ سنسکار ہونا چاہیے یہ سنسکار شودر کے لیے ممنوع ہے
۔۱۱:- ویدوں کا پڑھنا
اپینین سنسکار کے دن ہی یہ سنسکار کیا جاتا ہے، گائتری منتر سے لے کر چاروں ویدوں کے پڑھنے کا عزم و عہد لیا جاتا ہے۔ اُوم نام کا جاپ اور وید شاستر، پران، اسمرتی اور دھرم سوتر کے دیے گئے دستور و نظام کی پیروی کرنے کا وعدہ و اقرار کرایاجاتاہے
۔۱۲:- ویدوں کی تعلیم سے فراغت
اسکول یا کالج کی تعلیم چھوڑ کر گھریلو زندگی کی طرف آنا، اس وقت کے سنسکار کو سماورتن سنسکار کہتےہیں۔ جب ویدوں کی تعلیم مکمل ہوتو یہ سنسکاروتاہے۔ جب وید کی تعلیم لے کر گھر آئے تو ماں باپ گروا سے بلند مقام پربیٹھائیں
۔۱۳:- شادی وِواہ
شادی ذات و طبقات کے نظام کے مطابق اچھے کام کرنے کے لیے عورت و مرد کامِلَنْ سنسکار ہے شادی کے وقت سبھی دیوتاؤں کی پوجا کرائی جاتی ہے اور سب کے منتر پڑھے جاتے ہیں۔ بہو کو دیو پوجا میں اعتقاد بنائے رکھنے کا اقرار کرا کے ہندو سناتنی فکر کو مضبوط کیاجاتا ہے
١٤:- خانگی زندگی کی ابتدا
یہ گھریلو زندگی میں، داخل ہونے کا سنسکار ہے خانگی زندگی مرد و عورت کس طرح گزاریں یہی اس سنسکار کا مقصد ہے۔ زندگی میں زیادہ تے زیادہ مال و دولت حاصل کرے۔ زیادہ سے زیادہ پوجا پاٹ کرے اور برہمنوں کی خدمت کرے-
۔۱۵:- جنگل میں رہنا
وان پرستھ سنسکار اس کو کہتے ہیں کہ شادی کے بعد اولاد پیدا کرے اور اس کا بیٹا بھی شادی کرے اور اس کو بھی اولاد ہوجائے تب جنگل میں جاکر مندرجہ ذیل کام کرے۔ گاؤں کے قریب جنگل میں رہے، اگنی ہوم کرے، مانگ کر دوسروں کا کھائے اور دھرم شاستروں کے مطالعہ میں مصروف رہے۔
١٦:- سنیاس
یہ زندگی کا آخری سنسکار ہے جو عموماً ۷۵ سالکی عمر کے بعد شروع ہوتاہے۔ یہ ویراگیہ آشرم بولاجاتا ہے۔ اس میں ایشور کا بھجن کرے، نجات کے حصول کے لیے پوجا، بھٹکی اور دیؤس کی پوجا کرے، اُوم نام کی مالا چپے اور پرنایام کرے۔ سنیاس لیتے وقت چوٹی کے کچھ بال چھوڑ کر داڑھی، مونچھ کے ساتھ سب بال کٹادے۔ جنیو اتار دے اور زعفرانی رنگ کے کپڑے استعمال کرے۔ سنیاس لیتے وقت ھوم یگ کرے اور برہمنوں کو دعوت و دان دے۔
یہ سولہوں سنسکار کو ہندودھرم میں بڑی اہمیت حاصل ہے یہ تمام سنکار برہمن کراتے ہیں جن کے عوض ان کو مختلف قسم کی اشیا دان میں دی جاتی ہیں اور بہترین دعوتیں پیش کی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ موت یا کفن اور دفن کا سنسکار بھی پورے مذہبی طور طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ سنسکار بھی برہمنوں کے ذریعے کرایا جاتا ہے- یہ آخری سنسکار ہے-(اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ ص/۱۳۵تا ۱۳۹)۔
ہندو دھرم کے ماننے والے بے شمار کفریہ عقائد و اعمال کے پیروکار ہوتے ہیں مذکورہ عقائد و اعمال سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ یہ باطل دھرم ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے والے افراد و اشخاص کی گرفت مالک حقیقی کی بارگاہ میں ضرور ہوگی۔ اللہ کریم ہم سے کو اللہ رب العزت کے نزدیک محبوب و پسندیدہ دین دین اسلام پر استقامت دے اور نبی مکرم شفیع معظم صلی اللہ علیک السلام کی غلامی کا تمغہ لے کر دنیا سے جانے کی توفیق و رفیق دے۔ آمین یارب العالمین و بجاہ سید المرسلین علیہ التحیہ و الثناء۔
از قلم :- محمد فيضان رضا رضوی علیمی سیتامڑھی بہار
نائب صدر جماعترضاےمصطفے سیتامڑھی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
ہندو کا تاریخی پس منظر اور ہندو کا لغوی معنی
نوٹ : یہ تحریر آپ کو واٹس اپ گروپ “تقابل ادیان” کے ٹیم ورک سے میسر ہوئی ہے۔ ہماری ٹیم تقابل ادیان کے ساتھ رد الحاد اور رد رافضیت پر بھی منظم کام کر رہی ہے۔ لہذا جو علماے کرام تقابل ادیان، رد الحاد یا رد رافضیت میں دل چسپی رکھتے ہوں اور کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ ہم سے رابطہ کریں اور گروپ میں شامل ہوں 9170813892
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع