از قلم: محمد شاہد رضا امجدی مسجد قرطبہ کی امت محمدیہ سے فریاد
مسجد قرطبہ کی امت محمدیہ سے فریاد
یوں تو عالم اسلام کے گوشے گوشے میں لاکھوں کروڑوں مساجد سر بسجود آباد ہیں ایسے ہی اسپین کے صوبہ (اُندلُس) کا مشہور شہر( قرطبہ) ہے، وہاں کی عظیم ترین’’ مسجد قرطبہ‘‘ جو پوری دنیا کے زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے
جہاں ابن رشد اور حضرت امام قرطبی جیسے جید علما درس دیتے تھے ،جہاں کبھی سات سو سال تک مسجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں،جو اسلامی ادوار میں اندلس کی سب سے بڑی مسجد تھی جب ظالموں نے حملہ کیا اور اسلام کو ممنوع قرار دیا تو اس مسجد کو 1246ء میں ایک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا اور آج تک یہ چرچ ہی ہے ۔
فرانسیسی مؤرخ دریبار کہتا ہے ’’ہم یورپ والے مسلمانوں کے مقروض ہیں انہوں نے ہی ہمیں صفائی اور جینے کا ڈھنگ سکھایا ،انھوں نے ہی ہمیں نہانا اور لباس تبدیل کرنا سکھایا ،جب ہم ننگے دھڑنگے ہوتے تھے ،اس وقت مسلمان اپنے کپڑوں کو زمرد ،یاقوت اور مرجان جیسے بیش قیمت موتیوں سے سجاتے تھے ،جب یورپی کلیسا نہانے کو کفر قرار دے رہا تھا اس وقت صرف قرطبہ شہر میں 300 عوامی حمام تھے ۔
بتاؤ جن مسلمانوں نے ان کے بدن کو زینت بخشی ہو ،جن جنگلی بھیڑیوں کو خوب صورت معاشرے میں رہنے کا سلیقہ سکھایا ہو،جن کو تعلیم و تربیت کے ذریعے تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل دیا ہو ،صفائی و ستھرائی کا پیغام دیا ہو ۔جن امت کے متوالوں نے امن کا درس کا دیا ہو۔
آج انھیں مسلمانوں کے لیے اندلس کی زمین تنگ کر دی گئی ہے ۔آج انہیں مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عالمی سطح پر قانون پاس کرائے جا رہے ہیں ۔لیکن یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اسلام پر انگشت نمائی کرنے والے مٹ گیے اور اسلام آج بھی عالم کے گوشے گوشے میں جگمگا رہا ہے ،اور لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔
۔711ء کا واقعہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اندلس کا شہر ( قرطبہ) فتح کر لیا ،اس جگہ عیسائیوں نے ایک گرجا گھر تعمیر کر رکھا تھا اور فاتح مسلمانوں کو عبادت کے لیے ایک موزوں جگہ کی ضرورت پڑ گئی تو مسلمانوں نے مقامی عیسائیوں کی اجازت سے ایک جگہ نماز پڑھنے کے لیے مخصوص کر لی
پھر بنوامیہ کی خلافت کے بانی عبد الرحمن الداخل نے مسجدکی توسیع کے لیے بھاری قیمت ادا کرکے مسیحیوں سے گرجا گھر کی پوری زمین خرید لی پھر قبضہ کرنے کے بعد 785ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی بنیاد ڈالی
اس کے بعد کافی عرصے تک تعمیر ہوتی رہی اور یہ مسجد تقریباً 986 ء میں مکمل ہوئی۔
سیاح ادوار میں یورپ کا زمانہ بالکل الگ تھا ،مسلمانوں کی تہذیب عروج پر تھی جبکہ ورلڈ ہیر یٹیج سینٹر کے مطابق یہ ایک غیر معمولی قسم کی مسجد ہے جو مغرب میں اسلام کی موجودگی کا ثبوت ہے
اس مسجد کی تعمیر کا کام ذوق و شوق سے شروع ہوا اور اس مسجد کی تعمیر پر اسی ہزار دینار خرچ کر دئے ۔اگر مسجد کے بارے میں بات کریں تومسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے ایک رپورٹ کے مطابق یہ مسجد 1400 ستونوں پر قائم ہے اور ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں قائم ہیں اس کے ستون تو بوسیدہ ہو گئے ہیں
مگر آج بھی بڑے دلکش معلوم ہوتے ہیں اگر کوئی اسے دور سے دیکھتا تو اس مسجد کی آخری حد نظر نہ آتی، اس کی صفائی کے لیے 300 سے زائد خدام موجود تھے ،اس مسجد میں باقاعدہ مٹی کے بنے پائپ لائن سے پانی پہونچایا جاتا تھا اور یہ پانی پہاڑی چشموں سے آتا تھا اس کی دیواریں اتنی بلند تھیں کہ دور سے یہ شہر کی فصیل معلوم ہوتی تھی
چھت میں 280 ستارے نصب تھے جو خالص چاندی سے بنائے گیے تھے بعض کتب تاریخ میں درج ہے کہ اس مسجد کی چھت میں 360 طاق اس ترتیب سے بنائے گیے تھے کہ سورج اپنے پورے سال بھر کی گردش میں ہر روز ایک طاق میں داخل ہوتا تھا اور رات کی تاریکیوں میں 280 فانوش روشن ہوتے تھے
جن میں پیالوں کی تعداد 7460 تھی اس مسجد میں جلنے والے شمع اور چراغوں کے تیل کا سالانہ خرچ 316 من کے قریب تھا اور سال بھر میں ساڑھے تین من موم اور ساڑھے 36 سو بتیاں تیار کرنے میں خرچ ہوتا تھا
ہر جمعہ کو مسجد میں آدھا سیر عود اور پاؤ بھر عنبر جلایا جاتا تھا ،مسجد کے باہر سنگترے کا وسیع باغ ہے،جس میں جگہ جگہ وضو کے لیے چشمے اور حوض بنائے گئے تھے ،جس کے لیے پانی دریائے کبیر سے نالے نکال کر آج بھی مہیا کیا جاتا ہے ۔اللہ اکبر
اس مسجد کے بائیں جانب اور مسجد کے بالکل درمیانی حصے میں ایک بہت بڑا کلیسا بنا دیا گیا ہے مسجد کے مخصوص جگہوں کو کلیسا رنگ میں مزین کر دیا گیا ہے
لیکن مسلمانوں کو اذان دینے اور نماز قائم کرنے کے لیے آج بھی پابندی عائد ہے ،غرض یہ کہ مسجد کا کوئی حصہ عیسائی تصرف سے آزاد نہیں ہے صرف اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی نیت سے مسجد کے محراب اور اس کے سامنے دو تین صفحوں کی جگہ رسی باندھ کر الگ کر دی گئی ہے
شاید اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ حصہ مسجد کی یادگار کے طور پر باقی رکھا جائے ، اس کے قریب وہ ممبر بھی ہے جس سے کبھی قاضی منذر بن سعید جیسے خطیب کی آتش نوا تقریریں اندلس کی فضا میں بلند ہوتی تھیں یہ مسجد کا وہ حصہ ہے جہاں یقینا علامہ قرطبی حافظ عبد البر جیسے لوگوں نے نمازیں پڑھی ہوں گی۔
میرے دوستوں ! اس مسجد کی خوب صورتی کااندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں عیسایئوں کی اکثریت ہونے پر بھی کبھی کلیسا بنانے کی حمایت نہیں ملی
عیسائی خود کہتے تھے کہ اگر یہاں کلیسا بنا تو مسجد کا حسن خراب ہو جائے گا ،لیکن بعد میں آرچ بشپ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد کے بیچ میں کلیسا بنانے کا حکم دے دیا ،تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس نے جب مسحور کن مسجد کو دیکھا تو تأسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مسجد اتنی حسین ہے تو میں کبھی کلیسا کی تعمیر کا حکم نہیں دیتا‘‘یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے جسے اقوام متحدہ کی یونیسکو ٹیم نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا
اس مسجد کی دیدار کے لیے ہر سال 12 لاکھ سے زائد سیاح اسپین جاتے ہیں ،بد قسمتی یہ ہے کہ آج بھی یہ مسجد امام اور مقتدیوں کی منتطر ہے ۔لیکن اب تاریخ کے اوراق پلٹ گئے ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال پھوٹ پھوٹ کر رو رو کر لکھتے ہیں ۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم ِ پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں
اب تو حالیہ رپورٹ کے مطابق مسجد اقصیٰ بھی خطرے میں ہے ،یہودیوں نے قبلۂ اول کو چاروں طرف سے ناکہ بندی کر رکھی ہے ،مسلمانوں ! اب وقت آ گیا ہے کھڑے ہونے کا ،اب وقت آ گیا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ورنہ وہ دن دور نہیں جب اِن کے خونی پنجے ہم تک پہونچ جائیں ،ایک سیاح فارم کے قتل ہونے پر پورے امریکا کو آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے،پر ہمارے قبلۂ اول پر بری نظر پڑی ہے اور ہم خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
میرے دوستوں ! جب فرانسیسی افسر ملک شام گیا تو اس بدبخت نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی قبر پر لات مار کر کہا ’ اٹھو صلاح الدین ہم پھر آ گئے ‘ایسے ہی ایک اور فرانسیسی جرنل مراقش میں یوسف بن تاشفین کی قبر کے پاس گیا اور وہاں لات مار کہا ’’اے تاشفین کے لخت جگر اٹھو! ہم تمہارے سرہانے آ پہونچے ہیں
یہ سلسلہ رکا نہیں میرے دوستوں ’’الفونسو‘‘ نے حاجب منصور کی قبر پر سونے کی چارپائی بچھائی اور بیوی کو لے کر شراب کے نشے میں سو گیا اور کہا ’’ دیکھو میں نے مسلمانوں کی سلطنت پر قبضہ کر لیا‘‘ یہ سلسلہ چلتا رہا
یہاں تک کہ یونانی فوج کا کمانڈر غازی عثمان (بانی خلافت عثمانیہ) کی قبر کے پاس گیا اورکہا ’’ اٹھو اے بڑی پگڑی باندھنے والے اٹھو اے بہادر عثمان اٹھو! دیکھوں اپنے پوتوں کی حالت دیکھوں ہم نے کیسے تمہاری اس عظیم سلطنت کو گرا دیا اٹھو عثمان ہم تم سے لڑنے آئے ہیں
میرے عزیزوں! ذرا سوچوں ان عظیم بہادروں کی روحوں کی کتنی تکلیف پہونچتی ہوگی کہ امت محمدیہ ان کے کارناموں اور قربانیوں کو بھول گئی ان کے پاک مشن کو فراموش کر دیا اور آپس میں الجھ کر رہ گیے
بہادری اور دلیری سارا اثاثہ صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود رہ گیا ،اب ہم اپنا زور بازو اپنے ہی بھائیوں پر آزماتے ہیں،اب ہماری آواز صرف گلی محلوں تک ہی محدود رہ گئی
آج سے صد سال قبل جن مسلمانوں کے دیکھ کر اغیار اپنا سر خم کر دیتے تھے آج انییں مسلمانوں کو دبایا اور مارا جا رہا ہے، اور نہ جانے کتنے جدید قوانین پاس کرکے مسلمانوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں ۔
ہم مسلمان ایک جسم ہونے پر بھی مسلمانوں کی تکلیف محسوس کرنے سے قاصر ہیں ،اور عالم اسلام کسی ایک کونے میں محدود نہیں بلکہ 58 ممالک پر مسلمانوں کی آزاد ریاستیں قائم ہیں جس میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ہے یعنی دنیا کا ہر چھٹا آدمی مسلمان ہے
مگر افسوس کہ وحدانیت کا فقدان ہے ،یک جہتی کا نام و نشان نہیں ہے،جس کی وجہ سے مسلمان زوال اور پستی کا شکار ہے ،تاریخ کے اوراق سے دھول جھاڑیں تو آپ کے سامنے اندلس کی بدحالی ذاتی مفاد پر مسلمانوں کا منہ چڑھا رہی ہوگی اور آپ اس سے نظریں بھی چرائیں گے ،قرطبہ مسلمانوں کی شان کی علامت تھی اور آج کے بعد اس کی جامع مسجد میں گھوڑوں کا استبل نظر آئے گا ۔
میرے دوستوں ! تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب جب مسلمان اکٹھے ہوئے تو وہ بے شمار لا تعداد دشمن پر فتح یاب ہوئے ،مسلمانوں آج بھی تم اسباب بدر پیدا کرو، فرشتے آج بھی تمہاری مدد کو پہونچیں گے ۔اگر آج ہم تفرقات ختم کر ڈالیں تو آج بھی اللہ کی مدد آکر رہے گی ۔کوئی بھی محمد بن قاسم آج بھی پکار پر لبیک کہنے کو تیار ہے ،عمر بن خطاب آج بھی اپنی ریاست کی گلیوں میں گھومے گا ،کوئی سپہ سالار آج بھی اپنی فوجوں کو لیکر قبلۂ اول و مسجد قرطبہ کا رخ کرے گا ،،ضرورت بس ایک امر کی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کہا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ ہم مسلمانوں کے مابین اتحاد عطا فرمائے ،آمین یا رب العٰالمین بجاہ سید العرب و العجم ﷺ
۔✍️محمد شاہد رضا امجدی
نئی بازار،مہنداول ،ضلع سنت کبیر نگر(یو،پی)۔
رابطہ 8090962597
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع