حافظ ملت عادات و اخلاق کے آئینے میں تحریر : محمد حبیب القادری صمدی
حافظ ملت عادات و اخلاق کے آئینے میں
شریعت مطہرہ میں حسن اخلاق کو ایک عظیم مقام حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ اخلاق حسنہ اور عادات شریفہ کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:۔ ‘‘ اِنَّ الْمُوْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ ’’
ترجمہ: بندہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے ان لوگوں کے مقام و مرتبہ کو حاصل کرلیتا ہے جو دن بھر نفل روزے اور رات بھر نفل نماز پڑھتے ہیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،ص:۶۶۱)۔
اخلاق کی اہمیت کو اس حدیث پاک سے بھی سمجھا جاسکتا ہے،حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض دیہاتی لوگوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی:۔ ‘‘ یارسولَ اللہ ! مَاخَیْرُ مَا اُعْطِیَ الْعَبْدُ ؟ قَال :خُلُقٌ حَسَنٌ ’’
ترجمہ: بندے کو جو کچھ عطا کیا گیا ہے اس میں سب سے بہتر کیا چیز ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘حسن اخلاق ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب ما انزل اللہ داء الا انزل لہ شفاء،ص:۲۴۵)
پوچھنے والے نے انسان کی زندگی میں آنے والی تمام نعمتوں میں اس چیز کو جاننا چاہا جو سب سے بہتر ہو( جس میں مال ، دولت، شہرت، علم ، عمل سب کچھ داخل ہے) مگر ان سب میں اخلاق کو سب سے بہتر بتایا گیا۔
خلاصہ یہ کہ جن کے اند ر یہ عظیم وصف ہوتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور فضل و کمال حاصل کر لیتے ہیں۔ انہیں صاحب فضل و کمال میں حضور حافظ ملت حضرت علامہ مفتی الشاہ الحاج عبد العزیز علیہ الرحمۃ (بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ،یوپی) کا اسم مبارک سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
آپ علیہ الرحمہ جہاں علم و حکمت اور فکر و نظر میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے وہیں اخلاص و احسان اور تقویٰ آپ کا شعار تھا اخلاق حسنہ اور عادات جمیلہ آپ کا امتیازی وصف تھا
اللہ رب العزت نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ میں یہ اوصاف‘‘ حسن خلق، تواضع و انکساری ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرنا وغیرہ ’’بدرجہ اتم ودیعت فرمائی تھی۔ مولانا ظہیر الدین صاحب (استاذ عربی ودینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) آپ علیہ الرحمہ کے اخلاق حسنہ وعادات شریفہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
‘‘آپ نہایت نرم خو، نرم جو اور نرم گفتار تھے۔ ہر ایک سے محبت فرماتے ، ہر ایک کے ساتھ حسن خلق سے پیش آتے۔ ہرایک کی عزت کرتے اور کبھی کسی کی دل شکنی نہ فرماتے تھے۔ آپ نہایت خلیق، منکسر المزاج اور مہمان نواز تھے’’۔(ماہنامہ اشرفیہ ،حافظ ملت نمبر،ص:۱۰۴، اسرار کریمی پریس الہ آباد)۔
اہل محلہ اور پڑوسیوں سے برتاؤ
حضور حافظ ملت محلہ والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ، رنج و غم اور خوشی میں برابر شریک رہتے تھے۔حاجی محمد حسین مبارک پوری تحریر فرماتے ہیں
‘‘حضرت اپنے پڑوسیوں ، محلہ والوں اور اپنی مسجد کے مصلیوں کا گھر کے افراد کی طرح خیال فرماتے ، ان کے دکھ درد ، خوشی اور غم میں برابر شریک رہتے۔ کسی کے بارے میں خبر مل جاتی کہ بیمار ہے تو نماز کے بعد عیادت کے لیے تشریف لے جاتے
آپ جاتے تو ساتھ ساتھ مصلیان مسجد بھی جاتے کیفیت پوچھتے، دعا کرتے اور مفید علاج کے سلسلہ میں مشورہ بھی دیتےتھے۔ یہ اخلاق صرف محلہ والوں اور پڑوسیوں کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ آپ ہر اس شخص کی عیادت کو تشریف لےجاتے جس سے مدرسے یا کسی اور طرح سے آپ کا رابطہ ہوتا’’۔(المرجع السابق،ص:۳۲۱)۔
ایثار و قناعت
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا ایثار و قناعت سے لبریز واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ ملت کے سامنے دسترخوان پر ایک ہی روٹی تھی دروازہ پر سائل نے صدا لگائی ‘‘خدا کے نام پر روٹی کھلا دو بابا ’’ حافظ ملت نے نصف روٹی فقیر کے حوالے کر دی اورآدھی روٹی کھا کر شکر ادا کیا پاس کھڑا طالب علم حیرت سے دیکھنے لگا ۔ فرمایا: شیخ سعدی نے لکھا ہے
نیم نانے گر خورد مردخدا
بذل درویشاں کند نیم دگر
تو بتائیے ہم لوگ تو اسے پڑھتے پڑھاتے ہیں اگر ہمارا ہی عمل اس کے خلاف ہو گا تو عمل کون کرے گا؟ ’’۔(المرجع السابق،ص:۳۵،)۔
ان مضامین کو بھی پڑھیں
حیوانوں پر شفقت
حاجی محمد حسین مبارک پوری کا بیان ہے
‘‘ حضرت کا معمول تھا کہ کھانا کھانے کے بعد کتے کے لیے روٹی کا ٹکڑا ضرور دیتے، یہی حال گھر میں بسی چڑیوں کا تھا۔ روٹی باریک باریک کرکے یا ان کے چگنے کے لائق دانے حضرت ضرور رکھتے۔
ان کے لیے مٹی کے ایک برتن میں پانی آنگن کے وسط میں رکھا رہتا۔ دیکھا گیا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے تو چڑیاں شور مچانے لگتیں اور حضرت انھیں دانہ دینے کے لیے پکارتے تو سب کے سب اتر پڑتیں اور دانہ چگنے لگتیں۔
بعض بچے کبھی کسی کام سے اگر حضرت کے آنگن میں آتے اور اپنی فطرت سے مجبور ہوکر چڑیوں کا پیچھا کرتے تو حضرت انھیں منع فرماتے۔ اگر کسی لمبےسفر میں جانا ہوتا تو حضرت اسی لحاظ سے چڑیوں کے دانے کا انتظام فرماکر جایا کرتے تھے’’۔(المرجع السابق،ص:۳۲۴)۔
طلبہ سے حسن سلوک
طلبہ پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی مہربان فطرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:۔ ‘‘جہاں تک شفقت کا تعلق ہے وہ اپنے تلامذہ پر باپ سے بھی زیادہ شفیق تھے۔
باپ کی محبت بھی اپنے چند بیٹوں کے درمیان کبھی کبھی غیر متوازن ہوجاتی ہے یہاں تک کہ باپ کے خلاف بعض اولاد کو امتیازی سلوک کا شکوہ ہونے لگتا ہے لیکن اپنے ہزاروں تلامذہ کے ساتھ حافظ ملت کا مشفقانہ سلوک اتنا عجیب و غریب تھا کہ ہر شخص اس خیال میں مگن رہتا تھا کہ حضرت مجھی کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں
مزید فرماتے ہیں: ‘‘استاذ صرف اپنے ذہین ، محنتی اور وفا شناس شاگردوں پر شفیق ہوتا ہے لیکن حافظ ملت کی خصوصیت یہ ہے کہ غبی سے غبی ، بدھو سے بدھو اور بیگانہ سے بیگانہ شاگرد بھی انھیں اتناہی عزیز تھا جتنا ذہین سے ذہین ، قابل سے قابل اور قریب سے قریب شاگرد’’۔ (المرجع السابق،ص:۱۲۳/۱۲۴)۔
اور حضرت علامہ یٰسین اختر مصباحی صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں:۔ ۔‘‘طلبہ اور بچوں سے شفقت و محبت کا برتاؤ عام تھا۔ بے جا خشونت و سختی اور رعب وداب سے کوسوں دور رہتے۔ علما و مشائخ کرام کے ساتھ توقیر واحترام سےپیش آتے۔ اور ان کی عادلانہ مدح و ستائش کرتے’’۔(المرجع السابق،ص:۳۹۷)۔
ضیافت
عید قرباں کے موقع سے جو طلبہ جامعہ میں رک جاتے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ہر طرح سے کا ان خیال فرماتے اور کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔ حضرت مولانا سید شمیم گوہر صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں ۔‘‘عید الاضحیٰ کے روز حضرت کا یہ معمول بھی انتہائی مشفقانہ تھا کہ موجودہ تمام طالب علموں کو دعوت دے کر خود ان کی ضیافت فرماتے تھے اور چاروں طرف ٹہل ٹہل کر کھلانے پلانے کا خود کام انجام دیا کرتے تھے ، چیزیں ختم ہوجانے پر دوبارہ پھر دینے کی کوشش کرتے اس ضیافتی سرگرمی کے موقعہ پر حضرت طلبا کو کوئی زحمت نہیں دیتے تھے۔
سرپرستی کا ایک نمایاں انداز یہ بھی تھا کہ حافظ ملت آج کے روز تمام طلبا میں ایک ایک روپیہ بھی تقسیم فرمایا کرتے تھے تاکہ طلبا کے ذہن اس معمول کی یاد سے پریشان نہ ہوسکیں جسے ان کے والدین نبھائے رکھتے ہیں ’’۔(المرجع السابق،ص:۲۰۲)۔
شاگرد نوازی و تواضع
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ جیسا مشفق اور شاگرد نواز استاد شاذ و نادر ہی ملتے ہیں ۔ آپ علیہ الرحمہ کی شاگرد نوازی کے بارے میں یہ کہنا ‘‘جس پہ نگاہ ڈالی کندن بنا دیا’’حقیقت کی ترجمانی ہے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید مولانا مبین الہدیٰ (بیت الانوار گیا) تحریر فرماتے ہیں
اپنے شاگردوں کی دینی خدمات کو سراہنا ، ان کے کارناموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ، انھیں اپنی دعاؤں سے نوازنااور ان کی قابلیتوں کا برملا اعتراف کرنا حافظ ملت کی ایسی دل نوازادائیں ہیں جن کا جواب نہیں تواضع کے متعلق فرماتے ہیں
‘‘ان کی تواضع کا یہ عالم ہے کہ ‘‘ محب محترم’’ کا وہ لقب جسے لوگ اپنے دوستوں اور ہم عمر ساتھیوں کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں حافظ ملت اسے اپنے شاگردوں کو یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کو لکھا کرتے تھے’’(المرجع السابق،ص:۳۰۲/۳۰۴)۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے اخلاق حسنہ اور عادات جمیلہ کی یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی ۔ حاصل کلام یہ کہ آپ علیہ الرحمہ کا حسن اخلاق، خلوص و محبت ، علما و طلبا نوازی اور خدمت خلق آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو شریعت مطہرہ کا پابند بنائے اور فیضان حضور حافظ ملت سے مالا مال فرمائے۔ آمین یارب العالمین ،بجاہ سید المرسلین ﷺ
تحریر : محمد حبیب القادری صمدی (مہوتری، نیپال)۔
ریسرچ اسکالر جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)
رابطہ
8979256335
mdhabibulqadri@gmail.com
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔