تحریر: سلیم رضا عطاری (الہند) کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
اس جہانِ فانی میں ہر شخص کا کسی نہ کسی سے الفت و محبت کا رشتہ ضرور ہوتا ہے
اسے اپنے محبوب کی گفتار سے کردار سے اور اس کے ہر یار سے پیار ہوتا ہے وہ ہمہ وقت یادِ محبوب میں رہنا ہی محبوب رکھتا ہے
مگر تاریخ کے اوراق شاھد ہیں کہ جیسی محبت محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے جاں نثاروں نے اپنے آقا و مولی سے کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور کیوں نہ ہو کہ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روے انور کو جس نے بھی دل کی نگاہ سے دیکھا ہے ان کا ہو کر رہ گیا
ان کی ہر ہر ادا سے پیار کرنے والا بن گیا
ایسے ہی ایک عاشق کا واقعہ سنیے اور عشق رسول میں اضافہ کیجئے
چناں چہ ایک مقام پر سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کو پھیرے لگوا رہے تھے کسی نے اس عمل کے بارے میں استفسار کیا تو فرمایا میں میں نے ایک مرتبہ اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو پھیرا لگا رہے تھے میں بھی اسی اداءِ محبوب کو اپنانے کی نیت سے اپنی اونٹنی کو پھیرے لگوا رہا ہوں۔ سبحان اللہ
بتاتا ہوں تم کو میں کیا کر رہا ہوں
میں پھیرے جو ناقے کو لگوا رہا ہوں
مجھے شادمانی اسی بات پر ہے
میں سنت کا ان کی مزا پا رہا ہوں
آئیے اب
عُثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عشقِ رسُول بھی ملاحظہ کیجیے
حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھریَکایک مُسکرانے اور رُفَقاء سے فرمانے لگے: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟۔
پھرخود ہی اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں نے دیکھا سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا تھا :جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟۔
پھر میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی فرمایا: ’’جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چِہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔‘‘ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱ص۱۳۰حدیث۴۱۵)
وُضُو کرکے خَنداں ہوئے شاہِ عثماں کہا
کیوں تَبسُّم بھلا کر رہا ہوں ؟
جوابِ سُوالِ مخاطب دیا پھر
کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
سبحان اللہ یہ تھے حقیقی عاشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کہ جن کے سنت پر عمل کے جذبے کو پڑھ سن کر ہر مسلمان عش عش کر اٹھتا ہے کتبِ احادیث اس طرح کے واقعات سے مال مال ہیں
اور صحابۂ کرام اپنے آقاؤ مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو پسند اس لئے کرتے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو اتباع رسول کا ظہور لازمی ہوجاتا ہے ۔
احکامِ الہی کی تعمیل اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عاشق کی رگ و ریت میں سما جاتی ہے جانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو اپنی پسند بنانے والے ایک اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ بھی پڑھیے اور عشق رسول میں اضافہ کیجیے۔
چناں چہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا
کھانے کے دوران میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ) تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں اسی لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاطعمہ، باب الدباء،حدیث: 5433،ج3،ص534)
حضرت امام ابو یوسف( شاگرد امام اعظم) کے سامنے اس روایت کو ذکر کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا اس مجلس میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا لیکن مجھے نہیں پسند تو حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی تلوار کھینچی اور فرمایا تجدید ایمان کرو ورنہ تجھے قتل کر دیاجاے گا
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے جہاں ان کے عشق رسول کا پتا چلتا ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی سنت رسول پر عمل پیرا ہوتے ہوے گزارنی چاہیے زہے نصیب کہ کبھی ہم بھی اس نیت سے کدو شریف کو چن چن کر کھائیں کہ کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
مشکوٰۃ شریف میں مذکور اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی سنیے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو نکال کر پھینک دیا ۔
اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں ڈالے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس شخص سے کہا، تو اپنی انگوٹھی اُٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا
اس نے جواب دیا: نہیں، اللہ پاک کی قسم میں اسے کبھی نہیں لوں گا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے تو میں اسے کیسے لے سکتا ہوں، سبحان اللہ گویا وہ بزبان حال یوں کہ رہے تھے
گرادیا ہے جسے بھی نظر سے تم نے شہا
تو پھرخدا کی قسم حشر تک کبھی نہ اٹھا
قارئین کرام
ہمارے اسلاف کے یہ عشق مصطفیٰ سے لبریز واقعات ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ اگر ہمارا معاشرہ بھی احکامِ الہی کی تعمیل اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لے تو ہماری معاشرت سنور جائے اور آخرت نکھر جائے زندگی جینے کا سلیقہ آجاے اور عشق کی لذت مل جاے مالک حقیقی ہمیں متبعِ سنت عامل سنت بناے
آمین بجاہ طہ و یاسین ﷺ
۔✍️ سلیم رضا عطاری ھند
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع